شبیر احمد بٹ
کبھی کبھار بچے ایسے سوالات پوچھتے ہیں کہ بندہ کس سوال کا جواب دیئے بغیر سوالات کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا ہے اور بچہ بھی سمجھتا ہے کہ ابو کو جواب نہیں معلوم ۔
ایک مضمون “لیڈر بن جاو ” میں مصنف لکھتے ہیں اگر آ پ کو کوئی کام نہیں ملتا تو لیڈر بن جاو ۔ تجارت کے لئے سرمائے کی ، کھیتی باڑی کے لئے محنت کی اور نوکری کے لئے پہلے تعلیم کی پھر اسی لیڈر کی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے ۔مگر لیڈر بننے کے لئے نہ پیسوں کی نہ محنت کی اور نہ ہی تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے ۔بلکہ ایک ڈیڑھ مہینہ جھوٹ اور جھوٹا ……..”
یہ میں نے نہیں بلکہ حاجی لق لق نے اپنی کتاب ” آواز لق لق ” میں لیڈر بن جاو کے عنوان کے تحت لکھا ہے ۔
اس کے بعد مجھے شوکت تھانوی کی ” برق تبسم ” کا مضمون بعنوان ” اگر میں لیڈر ہوتا ” یاد آیا اور کئی طرح کے من گھڑت سوالات۔۔۔ لیڈر اور عام آدمی کا فرق ذہن سے فوراً نکال دیا کہ کہیں فرط جنوں میں مجھ سے نامزدگی کے کاغذات ۔۔۔؟
مگر اب ابن انشا کی کتاب ” آپ سے کیا پردہ ” کا مضمون ستانے لگا ۔آپ نے اس کتاب میں ” آگئے قوم کے لئے بےلوث خدمت کرنے والے ” کے تحت ایک مضمون لکھا ہے کہ جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں .لوگوں میں بے لوث خدمت کا جذبہ زور پکڑتا جارہا ہے ۔ اس سے پہلے کہ یہ جذبہ میرے اندر سے کسی اور صورت میں باہر نکل آتا میں نے فوراً اپنے ذہن کے دریچوں سے اسے نکال کے کچن میں سامنے بیٹھے بچے پر غور کیا جس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھ سے ایک سوال پوچھا تھا جس کے بعد میں خواہ مخواہ اس کتابی دنیا کے سوالات میں ۔۔۔!
اب ابراہیم جلیس کی کتاب ” ہنسے اور پھنسے ” کا مضمون ” سرکار کی باتیں ” اور “گورنمنٹ ” دستک دینے لگا تو بچے نے پھر سے اپنا سوال دہرایا ۔میں نے کہا میں ایک دو مضمون لکھ رہا رہوں ۔ ” ایکشن و الیکشن ‘ ” ووٹ اور نوٹ ” جب مکمل ہوجائیں گے تب آپ کو سوال کا جواب مل جائے گا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے میں نے بات کہاں سے کہاں ۔۔۔۔۔۔ بچے کے سوال کا جواب دینا تھا تو یہ مضامین وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔اصل میں سوال سن کر ہی یہ سب کچھ میرے ذہن و دل میں ہلچل مچانے لگا ۔بچے کا سوال تھا کہ
جو الیکشن ریلے میں سکوٹر سوار ۔اور گاڑیاں ٹریفک قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہے ہیں ان کا چالان کیوں نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
���
رحمت کالونی شوپیان
موبائل نمبر؛ 7889894120