لگتا ہے ہم جہاں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں وہ اندھے بہروں کی بستی ہے اور اس بستی میں کئی مظلوموں کی چیخ و پکار ان کے اپنے وجود کے حصار دم توڑ رہی ہے ۔کھٹوعہ کی 8 ؍سالہ ننھی منی خانہ بدوش بچی کی کہانی بھی اسی حقیقت کی داستان سرائی کر تی ہے ۔ یہ معصوم بچی مجبور وبے بس مظلوم مسلم طبقے سے تعلق رکھتی تھی ، کوئی روہنگیا مہاجر نہ تھی کہ بی جے پی اسے کھد یڈنے کا شور وگل کر تی۔ افسوس کہ وطن کی بیٹی ہونے کے باوجود اس معصوم کے ساتھ جو ہیبت ناک رویہ درندوں نے اختیار کیا ،اس پر کسی بھی باشعور انسان کا خون کھول اٹھ سکتا ہے ۔ پولیس چارج شیٹ کے مطابق یہ بچی چند خاکی وردی پہننے والے درندوں اور نفرت کی سیاست کھیلنے والوں کی دہشت و وحشت کا شکار بن کر اس دنیا سے بڑی ہی بےرحمی ،درد ، خوف اور بے نوائی کے عالم میں دوسری دنیا کو کوچ کر گئی۔ آج ننھی مظلومہ کی معصوم آنکھیں ہندوستان کی 125 کڑور انسانوں کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے لئے انصاف مانگ رہی ہے ۔ مقام ِ شکر ہے کہ اس پری وش مظلومہ کے لئے دلی ہمدردی رکھنے والے سچے محب انسانیت ہندوستانی متاثرہ بکروال گھرانے کو انصاف دلانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ہر دن کسی نہ کسی انداز سے اس بچی کو انصاف کے کٹہرے میں زندہ رکھنے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ ہندوستان میں صنف نازک کو ظلم و زیادتیوں سے چھٹکارا دلایا جا سکے اور انسانیت کو باربارعورت کی پسپائی سے شرمسار ہونے سے بچا یا جاسکے۔ہم سب اس ناقابل برداشت دُکھ اور غم میں بچی کے والدین اور خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں اور انصاف کی جوت جگانا چاہتے ہیں تاکہ دہلی کی نربھیا ہو یا کھٹوعہ جمو کی ننھی آصفہ ہو ،ا نہیں میلی آنکھ سے دیکھنے والے درندےپہلے سوبار اپنے عبرت آموز انجام سے باخبر رہیں۔
حق یہ ہے جب بھی ا س قماش کی مظلوم و مقہورلڑکیوں،بچیوں یا عورتوں کے لئے قلم اٹھتا ہے تو اُس کر ب انگیز منظر کا تصور کرکے ہمارے ہاتھ پاؤں کانپ اٹھتے ہیں اور دل تھر تھر کر نےلگتاہے ۔ ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ جب تصور کی آنکھ سے سوچ کر یہ حال ہوتا ہو تو اُس معصوم بچی پہ کونسی قیامت گذرتی ہوگی جسے کئی کئی دن تک بہیمانہ ہوس اور سنگ دلی کی کوکھ سے جنمے راکھشس جسمانی وروحانی اذیتیں دے جاتے ہیں ۔ ننھی آصفہ پر بھی یہی قیامتیں گذریں۔ واللہ اس درد کو لفظوں میں بیان کرنا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ شئیر کر نا ممکن ہی نہیںمگر کیا کریںیہ محض ایک انسانی جذبہ ہے کہ قلم کھٹوعہ کی بچی کے سوگ میں آنسوؤں کی زبانی کچھ لکھ رہاہے تاکہ مقتول ومظلوم بچی کو انصاف دلا نے کے لئے حکومتی شخصیتوں کو عار دلاسکوں ۔ بے حیا سماج اور بے مروت سیاست کی چبائی بکروال کلی آصفہ صوبہ جموں کے ہندواکثریتی ضلع کٹھوعہ کے گاؤں رسانہ میں اپنے خانہ بدوش غریب بوڑھے ماں باپ کے ساتھ عارضی طور مقیم تھی ۔ کم سنی ، سادہ زند گی،معصومیت ،بچپن سے ہی جفاکشی کی تربیت اور سہیلیوں ہمجولیوں کے ساتھ کھیلنا کودنا اس بچاری کی خصوصیات تھیں لیکن آج ننھی آصفہ اپنی ان دل موہ لینے والی صفات کے ہمراہ منوں مٹی نیچے مٹی میں ابدی نیند سو رہی ہے ۔ افسوس یہ کہ مقامی مندردیوی ستھان کے نگران اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم سنجی رام کی ہدایت پر اس کے بیٹے اور بھتیجے نے محافظ کہلانے والے دو پولیس اہلکاروں دیپک کھجوریہ اور سوریندرکمار ورما سے مل کر اس مظلوم بچی کا اغواکیا ، مندر میں چھپائے رکھا ، نشیلی دوائی اس کے منہ میں ٹھونس کر لگاتار ایک ہفتے تک پھول جیسی معصوم بچی کا جنسی استحصال کر نے کے بعد بڑی بےرحمی سے قتل کر دیااور بے گور وکفن جسم جنگل میں پھینک دیا تاکہ پورے علاقے میں خانہ بدوش دہشت زدہ ہوکربھاگ کھڑے ہوں ۔اس کے بعد جب معاملہ عوا می حلقوںسے گزرکر سرکار کے ایوان میں پہنچا تو پولیس تحقیقات کو غلط نتائج پر پہنچاننے کی نامراد کوشش خود انکوائری کر نے پولیس والوں نے کی ۔انہوں نے مقتولہ کے کپڑے دھوڈالے تاکہ سازش کے تانے بانے بُننے والے قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جائیں ۔ کم سن بچی پر مظالم کے پہاڑ توڑ کر پھر اس کا قتل کرنا ایک عام جرم نہ تھا بلکہ اس کے پس پردہ سیاسی عزائم تھے ۔ قاتل وجابرین کااصل مقصد ہندو اکثریتی کھٹوعہ میں بسنے والے قبائلی گجر طبقے کو خوف زدہ کر کے انہیں رسانہ گاؤں سے بھگانا تھا ۔ اس زہر ناک سازش کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچاننے کے لئے ہی ان جنگلی حیوانوں نے 8 سالہ معصوم بچی کو اپنا شکار بنایالیکن خداکاکرنا ایسا ہوا کہ سازش بر سر عام ننگی ہو گئی کہ آج سب کی زبان پر آصفہ کانام اور دل میں اس کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ موجزن ہے، جب کہ اس گناہ میں ملوثین کے خلاف رائے عامہ یہی ہے کہ انہیں پھانسی دی جائے۔
زیر بحث سنگین جرم کے بارے میں چند اور باتیں بھی کھل کر سامنے آگئیں مثلاً اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کی حمایت میں نوتشکیل شدہ ہندو ایکتا منچ نے اپنا حصہ ڈالا۔ منچ نے ایک لفظ بھی مقتولہ کے حق میں نہ بولا بلکہ الٹاقومی پرچم اٹھاکر ملزمین کو رہا کرنے اور انکوائری کرائم برانچ سے واپس لے کر سی بی آئی کے سپرد کر دینے کے لئے ریلیاں نکالیں ۔ کیا ا س سے یہ باور نہیں ہوتا کہ سی بی آئی جانچ کی مانگ اصل حقائق کی تہ تک پہنچے کےبجائے حقائق کو دبانے کی سوچی سمجھی چال تھی ؟ کیا اس مطالبے سے یہ مقصود تھا کہ جس طرح مکہ مسجد میں ملوث پانچ ملزموں کو گیارہ سال بعدثبوت پیش نہ کئے جانے کی منطق پر چھوڑ دیا گیا ہے،اُسی طرح مرکزی جانچ ادارے سے ملی بھگت کر کے عزت ریزی اور قتل کے مقدمے کا حلیہ بگاڑا جائے کہ ملزمین بآسانی قانون کو جُل دےسکیں ؟منچ کی ایک ریلی میں ریاستی حکومت کے دو بھاجپا وزرا نے شرکت کر کے مظاہرین کا حوصلہ بڑھایا اور پولیس کو خبردار کیا کہ کسی پر یواری کارکن کو نہ چھیڑے ۔ دونوں وزرا کو بعدازاں اسی بناپر مستعفی ہونا پڑا لیکن وہ اعلاناً کہہ چکے ہیں کہ انہیں پردیش بی جے پی کے صدر نے ریلی میں شرکت کر نے کی ہدایت دی تھی۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور متاثرہ غم زدہ کنبہ پولیس کی تحقیق پہ یقین کررہے تھے اور بی جے پی جو مخلوط سرکار میں اہم اکائی ہے وہ ریپ اور قتل کا کیس سی بی آئی کو سونپ دینے کی وکالت کرکے اپنی ہی سرکاری پالیسی کا مذاق اڑاتی پھرتی تھی۔ ان کی یہ حرکت چور کی داڑھی میں تنکا والی بات تھی۔ انہوں نے قطعی اپنے ہاتھ میں ترنگا محبت اور وقار کی علامت کے طور نہ تھا ماتھا بلکہ وہ اسے محض ایک سیاسی آلہ ٔ کار کے طور استعمال کر رہے تھے ۔ کھٹوعہ میں ملزمین حامی ریلیاں نکالنے سے علاقے کا ماحول تشددزدہ بنانے کی منظم کوشش ،کھٹوعہ ضلع کورٹ میں آر ایس ایس سے وابستہ وکلا کا پولیس کو عدالت میں چالان پیش کر نے سے روکنے کی غنڈہ گردانہ کارروائی ، فسادی بیانات و اشتعال انگیز تحریریں اور بار ایسوسی ایشن جموں کی بند کال، یہ ساری چیزیں ایک ایسی منفی ذہنیت کی غماز ی کر تی ہیں جو واضح کرتی ہے کہ انسانی بھیس میں چھپے جانور نفرت اور بغض میں کتنے اندھے ہوسکتے ہیں ۔ جو لوگ عورت کو دیوی کا درجہ دیتے ہیں، ناری کو ستی ساوتری ،دُرگا،لکشمی، سرسوتی ،امبے ،کالی اور پتہ نہیں کن کن باعزت ناموں سے پوجا کرتے ہیں،وہ عملی دنیا میں عورتوں ،ننھی بچیوں اورمعصوم لڑکیوں کی یوں تذلیل کریں تو شرم آنی چاہیے ان لوگوں کو انسان کہتے ہوئے ۔ اس وقت یہ حقیقت پورے ملک میں زبان زد عام ہے کہ سنگھ پریوار عورت کی عزت اور اس کے وقار کے دشمن ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کھٹوعہ کی اذیت ناک کہانی کا ایکشن ری پلے جہار کھنڈ اور سورت میں بھی ہو اجب کہ اُناؤ میں بی جے پی ایم ایل اے کالدیپ سنگھ سینگر نے ایک سترہ سالہ ہندو لڑکی کی عصمت پر ڈاکہ ڈالا جو بچاری نوکری کے لئے اس کے پاس گئی تھی اور واپس لوٹی وت لٹ چکی تھی ۔ ایم ایل اے اور اس کے درندوں نے اس کو نوچ کھایا تھا۔وہ انصاف کی دہائی دے دے کر دربدر پھر رہی تھی مگر بے سود ۔ اس کو اگر اپنے دکھڑے کا کوئی صلہ ملا تو یہ کہ اس کے ڈیڈی کو پولیس نے حراست میں لے کر مارا پیٹااور پھر لاش کریا کرم کے لئے گھر والوں کو لوٹادی ۔ ملک میں عورت مخالف بگڑے ہوئے حالات کے چلتے عورتوں کا جنسی استحصال کو ئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ پتہ نہیں بی جے پی سے جڑیں مہیلا منتری آخر گونگی اور بہری کیوںبنی ہوئی ہیں ؟ کیا حوا کی متاثرہ بچیوں کی درد بھری چیخ و پکار ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے ؟ وہ پہلے مہنگائی کو لے کر سڑکوں پر اپنی راج نیتی کا بھاؤ بڑھایا کرتی تھیں، حکمران پارٹی کے خلاف نعرے بازیاں کیا کرتی تھیں لیکن آج ناری کی کھٹوعہ تا سورت یہ بپتا دیکھ کر ان سب کو کیوں سانپ سونگھ چکا ہے ؟ کیا اقتدار میں آنے کہ بعد ہر غلطی اور ہر گناہ جائز ٹھہرتا ہے ؟ ان کو چاہیے کہ یہ مظلوم عورت کا ساتھ دیں، اسے پریم اور آدر کی دیوی بنائیں ، اُن وحشی درندوں کا وناش کریں جو عورتوں اور بچیوں کا شکار کرتے ہوئے انہیں یا تو خود موت کے گھاٹ اُتارتے ہیں ، یا خود سوزی پر مائل کر تے ہیں ، یاگھٹ گھٹ کر جینے پہ مجبور کرتے ہیں ۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے: دل یا فناہونے والی کرسی