رسانہ ہیرا نگر کی آٹھ سالہ بچی آصفہ کا جس منصوبہ بند اور سنسنی خیز انداز میں اغواء ، عصمت ریزی اور قتل ہوا وہ جموں کشمیر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے جو اپنے پس پردہ گہرے عوامل اور منفی محرکات کا ایک دفتر سمیٹے ہوئے ہے ۔اس المیے سے بین الاقوامی سطح پر فسطائی قوتوں کی خون خواریوں کی بدنامی ہوئی ۔ واقع یہ ہے کہ کھٹوعہ ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرازم کے چہرے سے منافقت کانقاب اُلٹ گیا اور دنیا کو پتہ چل گیا کہ ہندوستان میں تمام اقلیتیں خاص طور پر مسلمان کتنے غیر محفوظ اور محروم ہیں۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں کہ ایک کم سن بچی کا اغواء ، عصمت ریزی اور قتل کیاگیا جو کرائم سے جھوج رہے ہندوستان میں معمول کی روایت بن چکی ہے اور آئے دن اس قسم کے بیسیوں منحوس واقعات ملک و قوم کا مقدر بن چکے ہیں ۔ان واقعات کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ عموماً انہیں میڈیا بھی کوئی غیر معمولی اہمیت نہیں دیتا مگر کھٹوعہ واقعہ جس مخصوص انداز میں اور جس حیوانی ذہنیت کے ساتھ وقوع پذیر ہوا ، بالخصوص ریاستی پولیس کی کرائم برانچ کی تحقیق وتفتیش کے آئینے میںاس لگے بند ھے منصوبے کے جو ڈراؤنے خد وخال سامنے آئے ہیں، نیز اس المیہ کی سرکاری سطح پر داستان سرائی پر اپنا سر شرم سے جھکانے کے بجائے جموں خطہ میںایک مخصوص انسان دشمن لابی جس ہنگامہ خیز انداز میں ملزمان کے دفاع میں مختلف محاذوں پر سر گرم عمل ہے ، وہ کافی چونکا دینے والا بھی ہے اور چشم کشاہے ۔
اس لابی نے ملزمان کے حق میں جلسے ،جلوس پر نٹ اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے جس انداز کی پریشان کن سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں وہ ا س لئے بھی تشویش ناک ہیں کہ ان کی پشت پناہی بی جے پی نیتا، بعض ووزراء اوردیگر ہندو احیاء پسند تنظیموں سمیت وکلاء کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ ٔاعمال سے ان لابیوں کے صوبہ جموں کے مسلمانوں کے تئیں خفیہ عزائم پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اس خطہ کا ہر ذی شعور اور مثبت سوچ رکھنے والا شہری کے لئے یہ سیاہ عزائم بلاتمیز مذہب وملت دکھی دل کے ساتھ انہیں نوٹ کر چکاہے۔ ان پر تمام امن پسند شہریوں کو بالعموم اور خطہ کے مسلمانوں کو بالخصوص اجتماعی طور پر مل بیٹھنا چاہیے تاکہ اس مدعے پر سنجیدگی سے غورو فکر کر کے مستقبل کالائحہ عمل مرتب کریں۔ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ کھٹوعہ سانحہ اتفاقا ًرونما نہیں ہوا بلکہ اس کے پس پردہ ایک منصوبہ بند تحریک تھی جو آٹھ سالہ آصفہ کی شہادت سے افشاء ہوگئی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ خطہ جموں فی الوقت ایک بڑے سانحہ سے وقتی طور پر بچ گیا مگر مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ۔
۱۹۹۰ء کی دہائی سے ریاست میں جو غیر یقینی سیاسی صورت حال چلی آرہی ہے ، اس کی وجہ سے ریاست کے مختلف علاقوں سے کچھ لوگوں نے روزگار یا بچوں کی تعلیم وتربیت کی غرض یا کسی دوسرے مقصد سے جموں کا رُخ کرنا شروع کیا جس کے سبب پرانے جموں شہر کے گرد ونواح میں کچھ نئی مسلم بستیاں آباد ہوگئیں اور اُن بستیوں میں رہائش پذیر مسلمانوں نے اپنی مذہبی ضروریات کی غرض سے مسجدیں بھی تعمیر کرلیں اور درسگاہیں بھی، جو کسی بھی مسلم بستی کے لئے ایک معمول کا عمل ہوتا ہے ۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آتا ہے کہ مسلمان جہاں بھی آباد ہوتے ہیں، وہاں مذہبی فرائض کی ادئیگی کی خاطر مساجد کی تعمیر ان کی اجتماعی زندگی کا ایک لازم وملزام ہوتا ہے۔ مزیدبرآں دربار مو کے سبب موسم سرما میں جہاں سرکاری دفاتر اور حکومت کا سارا عملہ جموں میں منتقل ہوتا ہے، وہیں ریاست کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی جموں میں عارضی ڈیرہ ڈالتی ہے۔ اسی طرح خانہ بدوش گجر اور بکروال طبقہ بھی اپنے مال مویشی سمیت برفانی پہاڑوں سے اتر کر جموں کے گرم میدانی علاقوں میں آ تے جاتے ہیں ۔ یہ نقل مکانی ان کا صدیوں کا معمول چلا آرہا ہے۔ ان لوگوں کی اکثریت خانہ بدوشی کی روایت پر آج بھی من وعن عمل پیرا ہے۔ چناں چہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یہ لوگ ہمیشہ گرم وسرد علاقوں کی طرف کوچ کرتے رہتے ہیں ،اس لئے انہیں بہاروں کا سفیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اس بارے میںقابل ذکر بات یہ ہے ریاست کے غیر یقینی سیاسی حالات کے چلتے جموں میں دور ونزدیک کے مسلمانوں کا پڑاؤ ڈالنا ایک اتفاقیہ معاملہ تھا لیکن اس خطہ میں منفی سوچ رکھنے والی ایک مخصوص لابی کو کبھی بھی یہ چیز ہضم نہ ہو سکی اور یہ عناصر گاہے بگاہے مختلف ذرائع سے اس ناراضی کا کبھی کھلے لفظوں اور کبھی ذرا سے مبہم انداز میں اظہار کرتے ر ہے ۔ ۲۰۰۸ ء میںامرناتھ شرائن بورڈ کے قضیہ کے باعث اس ناراضی نے ایک نگیٹو تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔اس نے ریاست کے بھائی چارے اور صدیوں پرانی ہم آہنگی کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ۔ اسی کمیونل جرثومے کی تخم ریزی سے خطہ میں کچھ حادثاتی سیاسی نیتاؤں کا جنم بھی ہوا جنہوں نے موقع بے موقع حالات سے خود غرضانہ فائدہ اٹھا تے ہوئے عام لوگوں کا جذباتی استحصال کر کے اپنی نیتاگری شناخت قائم کرلی ،حالانکہ ان لوگوں کا نہ کوئی سیاسی پس منظر تھا اور نہ انہیں کسی اچھے کام کے توسل سے کوئی جانتا مانتا تھا۔ ادھر نئی دہلی میں کانگریس کا بستر گول ہونے اور بساطِ سیاست پلٹنے کا جموں کے سیاسی ٹمپریچر پر بھی ایک غیر معمولی اثر مرتب ہو ا ۔ نتیجہ یہ کہ ۲۰۱۴ء کو اسمبلی الیکشن کے تناظر میں صوبہ جموں پوری طرح فکری ،سیاسی اور نظریاتی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ۔اس سے صورت حال مزید گھمبیرتا حاصل کر گئی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جموں خطے کا مسلمان اپنے فکری بے جہتی،ذہنی انتشار ،مسلکی افتراق ،قبائلی عصبیت،سیاسی عدم بلوغیت کے باعث اس نازک موقع پر کوئی مفید ، مثبت اور تعمیری رول ادا نہیں کر سکا بلکہ بعض مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان محض اپنے حقیر ذاتی مفادات واغراض کی خاطر فسطائی قوتوں کے آلۂ کار بن کر فرقہ پرستانہ لہر میں تقویت کا باعث بن گئے ۔آج کی تاریخ میں اسی رسہ کشی ، سرپھٹول اور نااتفاقی کے کڑوے کسیلے پھل خطہ کے مسلمان کھانے پر مجبور ہورہے ہیں۔اس سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کا مستقبل مزید غیر یقینی بنتا جارہا ہے ۔ ا س ضمن میں ہوا کے رُخ کا پتہ آصفہ اغوا ء اور قتل کی سازش سے چلتا ہے ۔ نسلی تطہیر کی یہ سازش کو ایک مخصوص ذہن رکھنے والی زعفرانی لابی نے بڑی تکنیک اور منصوبہ بندی سے ترتیب دی تھی جسے سیاسی سر پرستی بھی دستیاب تھی۔اگر آصفہ کیس کے ملزمین قانون کی گرفت میں نہ آتے تو اس قسم کے مزید واقعات رونما ہونے میں دورائے نہیں ۔ اس صورت میں پہلے مرحلہ پہ کٹھوعہ ،ہیرانگر، سانبہ اور آر ایس پورہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میںعارضی یا مستقل رہائش پذیر مسلمانوں کو خوف زدہ کرکے نقل مکانی پر مجبور کرنا طے تھا۔ اس کے بعد دوسرا نشانہ جموں میں پناہ گزیں برما کے لٹے پٹے روہنگیائی مسلمان تھے ، جب کہ تیسرے مرحلے پہ جموں کے گردونواح کی وہ مسلم بستیاں ٹارگٹ ہوسکتی تھیں جو ۱۹۹۰ء کی دہائی کے بعد وجود میں آئی ہیں ۔ یہ بستیاں ہمیشہ سے فرقہ پرست لابیوں کی آنکھوںمیںکانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ہیں ،باوجود یکہ جموں میں رہائش پذیر مسلمانوں کا کبھی کسی بھی معنیٰ میں کوئی منفی رول نہیں رہا ہے اور یہ طبقہ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر گامزن ہے ۔
آصفہ کیس کے ملزمان کی گرفتاریاں ہونے کے بعد ہندو ایکتا منچ اور بار ایسوسی ایشن کٹھوعہ وجموں کے وکلاء نے خطہ میں جو انتشاری فضا پیدا کر نے کی شعوری کو ششیں کیں اور ترنگا لئے جس طرح جلسے جلوس اور مظاہروں سے عام لوگوں کو مسلم کمیونٹی کے خلاف اُکسایا ،اگر چہ جموں کے زیادہ تر لوگوں بشمول کاروباری طبقے نے مجموعی طور پر ہندوکارڈ کھیلنے والوں کا ساتھ نہیں دیا لیکن پھر بھی پورے صوبہ جموں کی فضا میں اندرونی طور تنائو اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ اُدھر وکلاء برادری بھی اس کیس کے تعلق سے دو متوازی حصوں میں تقسیم تھی ،جموں کے علاوہ چناب اور پیر پنجال خطہ کے مسلم وکلاء نے جموں بار کے بند اور احتجاجی فیصلے کی مخالفت ضرور کی مگر ہندو وکلاء نے ان خطوں میں مسلم وکلاء کا کوئی ساتھ دیا نہ ان کے جذبات کی کوئی پرواہ کی ۔یوں پورا صوبہ جموں ایک دفعہ پھر مذہبی بنیادوں پر منقسم ہوتا گیا ۔البتہ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ من حیث القوم جموں کے عام لوگوں اور کاروباری حلقوں نے جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بند کا ساتھ نہیں دیا لیکن تعصب ونفرت کی بنیاد پر جو تحریک فرقہ وارانہ بنیادوں شروع ہوچکی ہے ، وہ ایک کثیر المذاہب معاشرہ کے لئے کو ئی نیک شگون نہیں ۔ علاوہ ازیں بار کونسل آف انڈیا کی نام نہاد ٹیم نے جو رپورٹ عدالت عظمیٰ کو پیش کر دی ،وہ بھی یک طرفہ اور فرقہ پرستوں کی پردہ پوشی اور حوصلہ افزائی کا باعث بن گئی ،حالانکہ جموں بار کے صدر مسٹر سلاتھیہ نے حکومت کو صاف صاف دھمکی دی تھی کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو کل ہمارے ہاتھوں میں پتھر کی جگہ اے کے ۴۷؍ اور گرنیڈ بھی ہوسکتے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر بالفرض یہی دھمکی کوئی مسلمان دیتا تو تو وہ اسی وقت تک تہاڑ جیل کا قیدی بنایا گیا ہوتا لیکن چونکہ ہماری ریاست میں ہمیشہ سے مختلف طبقوں ا ور خطوں کے لئے انصاف کے مختلف اور متضاد پیمانے رہے ہیں ،اس وجہ سے ریاست عوام کو یہ بُرے دن دیکھنے پڑرہے ہیں۔
ریاستی حکومت میں شراکت دار بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ قیادت کا کوئی ٹھوس سیاسی پس منظر نہیں، یہ سب کی سب شاکھا نظریات کے علمبردار اور ہمارے وطن میں پائے جانے والے مخصوص حادثاتی حالات کی پیداروار ہیں ۔صوبہ جموں میں ان لوگوں کی تقلید میں بعض دیگر گروپ بھی ڈوگرہ اِزم یااحیاء پسندی کے نعرے لے کر سیاست میں کودگئے ہیں ۔ستم ظریفی یہ کہ ان سے کچھ بے شعور اورکرایہ کے جعفرو صادق جیسے دوغلے مسلم بھی نعرہ بازی کے لئے ساتھ مل گئے ہیں۔ اس کے مدمقابل صوبہ جموں کی ہندو برادری میں مثبت اور سیکولر ذہنیت رکھنے والوں کی خاصی تعداد موجود ہے لیکن ابھی تک یہ لوگ بوجوہ کھل کر سامنے نہیں آر ہے ہیں ۔ اس سے فرقہ پرستوں کی حوصلہ شکنی کا اجتماعی عمل ابھی تک شروع نہیں ہو پایا اور منفی جراثیم کو فروغ مل رہا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں سے کسی’’ گریٹر پیر پنچال فورم‘‘ کانام بھی کبھی کبھا اخبارا ت کی سرخیوں کی زینت بنا چلا آ رہا ہے ۔ا س حوالے سے خطہ چناب اور پیرپنچال کے کچھ وکلاء کے نام گشت کرتے ہیں مگر یہ ساری سیاست اخباری بیانات تک محدود ہے، زمینی سطح پر اس فورم کا کوئی وجود نہیں اورنہ کبھی ان وکلاء کو اجتماعی طور پر سنجیدہ مشاورت کے لئے مل بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔ اگر یہ فورم کاغذی بیانات کے بجائے عملی طور پر سرگرم عمل ہو جائے تو خطہ کی سیاست اور مستقبل کے نقشوں میں اہم تبدیلی لانے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ ظاہر ہے وکلاء کا طبقہ دل ودماغ رکھنے والا انسانی مواد ما ناجاتا ہے، صوبہ جموں اپنے رقبے اور ساکھ کے لحاظ سے وادی کشمیر سے کافی مختلف ہے، یہاں کا المیہ یہ ہے کہ اس کے پہاڑوں اور دروں کے طول وعرض اور جغرافیائی حدبندیوں کی طرح یہاں کے مسلمانوں کے عوام اور خواص کا ذہن وفکر بھی بٹا ہوا ہے ۔ یہ طبقہ ایک دوسرے سے کافی مختلف المزاج اور فاصلوں پر اپنے اپنے خول میں مقید یا سرگرم عمل ہے اور ہر خطے کے اپنے اپنے خود ساختہ مسائل ،نعرے اور دلچسپیاں ہیں۔ان سے باہرنکل کر صوبائی سطح پر ملی مسائل پر غور فکر کی بصیرت کا فقدان ہے ۔ اوپر سے چانکیائی سیاست کے علمبردار اور منصوبہ ساز انہیں کبھی بھی کھلے ذہن ودل ودماغ سے سوچنے اور اپنے مستقبل کی مجموعی منصوبہ بندی کا موقع فراہم نہیں ہونے دیتے ۔ بقول اقبال
خواب سے جب بیدار ہوتا ہے مسلمان
تو سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
اگر چہ سپریم کورٹ نے آصفہ کیس کو پٹھان کوٹ منتقل کرنے کے احکامات صادر کر دئے ہیں اور سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ بھی فی الوقت مسترد کردیا ہے مگر اس کے باجود اس کیس کومعرض وجود میں لانے والی انسانیت کی دشمن لابی جموں اورکٹھوعہ خطوں میں بدستور سرگرم عمل ہے ،ہندو ایکتا منچ کے سربراہ کی نفرت انگیز تقاریر اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں ، حکومت سے برخواست شدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو سابق وزراء کی منفی سرگرمیاں جاری وساری ہیں ، یہ سب بہ حیثیت مجموعی جموں کے سیاسی اور عوامی اُفق پر کافی تنائو اور نفرت انگیز ماحول پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے اور اس سے فرقہ پرست اور اقلیت دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی اور خطہ کے مسلمانوں کے لئے مسائل اور پیچیدگیوں کا باعث بن رہی ہیں
ان حالات میں پورے صوبہ جموں کی باشعور مسلم قیادت اور اہل بصیرت مسلمانوں کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ذاتی مفادات، علاقائی وگروہی تضادات اور پارٹی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر صوبائی سطح پر مل بیٹھیں اور صوبہ جموں کے طول وعرض میں بسنے والی مختلف نسلی تہذیبی ولسانی اکائیوں سے وابستہ مسلمان طبقے کے مستقبل کے تحفظ اور آئے دن رونما ہونے والے ناگفتہ بہ حالات اورواقعات کے حوالے سے غور وفکر کرکے ایک اجتماعی لائحہ عمل تشکیل دیں۔ اگر ملکی اور ریاستی سطح کے موجودہ مخصوص حالات کے تناظر میں صوبہ جموں کی مسلم قیادت تمام مسلمانوں کے لئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے میں خدانخواستہ اس بار پھر ناکام رہی تو ۱۹۴۷ء کی طرح کسی آنے والے اچانک طوفان سے وہ خود کو محفوظ نہیں کر سکیں گے اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ اللہ وہ دن دشمن کو بھی نہ دکھائے۔
نوٹ :مضمون نگار چیرمین الہٰدی ٹرسٹ راجوری ہیں
رابطہ نمبر۔7006364495