حالیہ حالیہ دہائی میںاپنے وطن عزیز ہندستان میں جنسی استحصال و معصوم بچیوں کی عصمت دری کے ہولناک واقعات میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا ہے ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا انسانی معاشرہ مذہب و اخلاق سے عاری ہوتا جارہا ہے کیوں کہ تمام مذاہب میں اس طرح کی بر بریت اور بد اخلاقی کو غیر انسانی فعل قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک سناتن ہندو دھرم کا سوال ہے تو اس میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ جہاں ناریوں کی پوجا ہوتی ہے ،وہیں دیوتا واس کرتے ہیں اوردین اسلام میں لڑکی کی پیدائش کو خیر و برکت کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی نسل نسوانی کو انسانی سماج کے لئے مسرت و عشرت کا منبع تسلیم کیا گیا ہے، کیوں کہ نسل انسانی کی بقاو افزائش بغیر نسواں کے ممکن نہیںمگر افسوس صد افسوس کہ دور حاضرہ میں جس طرح دو سال سے لے کر دس بارہ سالوں کی معصوم بچیوں کے ساتھ عصمت دری اور اجتماعی آبرو ریزی کے بعد اس کے قتل کی کہانی سنتے ہیں ۔ اس طرح کے واقعات تو جب ہم دور جاہلیت میں جی رہے تھے ، اس وقت بھی اس طرح کی بربریت معصوم بچیوں کے ساتھ نہیںہوتی تھی ۔ آج ہم خلا ء کی سیر اور چاند کی بلندی کو حاصل کرنے والے انسان، انسانیت کی پستی کے حامل بن کر رہ گئے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہر روز اس طرح کے غیر انسانی فعل کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں نوبل انعام یافتہ سماجی مصلح کیلاش ستیارتھی نے وضاحت کی ہے کہ ہمارے ملک میں روزانہ ۵۵ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تازہ قومی کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق بھی یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۶ء کے دوران بچیوں کے جنسی استحصال اور آبروریزی کے واقعات میں ۸۴فیصد اضافہ ہوا ہے،جب کہ سچائی یہ ہے کہ بہت سی ایسی واردات پردۂ خفا میں رہ جاتی ہیں کہ بچیوں کے خاندان والے سماجی لوک لاج کی وجہ سے اس طرح کی بربریت کے واقعات کو عام نہیں کرتے ۔ عمر دراز عورتوں کے ساتھ بھی اس طرح کی واردات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
واضح ہو کہ ہمار ے ملک میں پہلے سے ہی سی آر پی سی میں اس طرح کے غیر انسانی افعال کی سزا مقرر ہے۔ باوجود اس کے اس طرح کے واقعات میں دنوں دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آخر کیوں؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔ در اصل کوئی بھی قانون موثر اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اس قانون کو ایماندارانہ عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں پولس انتظامیہ کا رویہ کچھ اس طرح کا رہا ہے کہ سخت سے سخت قانون بھی بے اثر ہو کر رہ گیا ہے ۔نربھیا عصمت دری واقعہ کے بعد بھی اس ملک میں بہت ہنگامے ہوئے اور پوکسو (Protection of Children Against Sexual Offence Act)میں بھی معصوم بچیوں کی عصمت دری کرنے والوں کے خلاف سخت سزا کی وکالت کی گئی ۔ باوجود ا س کے روز بروز بچیوں کے جنسی استحصال اور اس کی آبروریزی کے واقعا ت میں اضافے ہوتے رہے ہیں۔ یہ ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے۔
حالیہ معصوم آصفہ کی اجتماعی آبروریزی اور پھر اس کے قتل کے واقعات نے نہ صرف ہندستان بلکہ پوری دنیا کے باضمیر انسانوں کو جھنجھور کر رکھ دیا ہے۔ ریاست جموںو کشمیر کے کٹھوعہ میں ایک خانہ بدوش بکروال خاندان کی معصوم آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ جس طرح کا حیوانی سلوک کیا گیا اور پھر اس کا قتل کیا گیا ، اس واقعہ کو سن کر ہی جسم لرز اٹھتا ہے اور آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔ ایک مذہبی عبادت گاہ یعنی مندر کے اندر کئی دنوں تک اس معصوم کے ساتھ حیوانیت کا کھیل ہوتا رہا ، کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ مندر میں بھی اس طرح کی بربریت ہو سکتی ہے، جیسا کہ آصفہ کے خاندان والوں نے کہا کہ مندر کی تلاشی محض اس لئے نہیں کہ یہاں تو بھگوان رہتے ہیں۔ ظاہر ہے اب تک تو یہی سمجھا جارہا تھا کہ مندر، مسجد،کلیسا و گرو دوارے میں اللہ ، ایشور کا باس ہوتا ہے ۔ وہاں شیطان کے لئے کوئی جگہ نہیں مگر آصفہ کے ساتھ وہاں جو کچھ ہوا، اس نے ہمارے یقین و وشواس کو متزلزل کرکے رکھ دیا ہے ۔آصفہ سے پہلے نربھیا واردات میں بھی پورا ملک سہم گیا تھا اور اس طرح کے غیر انسانی فعل کو انجام دینے والوں کے خلاف ایک ماحول تیار ہوا تھا مگر آصفہ عصمت دری کے واردات کو ہندو ایکتا منچ اور بھاجپا کے ریاستی وزرا ء نے جس طرح مذہبی رنگ دینے کی مذموم کوشش کی ،وہ بھی افسوس ناک ہے۔ بالخصوص عدلیہ کے اہم حصہ یعنی وکلاء نے جس طرح اس معاملے کو مذہبی آئینے سے دیکھنے اور مجرموں کے حق میں صف بند ہوئے وہ بھی ہماری جمہوریت کی سا لمیت کے لئے خطرنا ک ہے مگر ان سب کے باوجود آصفہ عصمت دری کے معاملے میں قومی سطح پر جس طرح سیکولر ذہن ، انصاف پسند اور انسانیت کے علمبرداروں نے آصفہ اور ان کے خاندان کے تئیں ہمدردی دکھائی ہے وہ ہماری قومی یکجہتی کی نادر مثال ہے۔
واضح ر ہے کہ آصفہ کے لئے عدلیہ میں مقدمہ دائر کرنے والی اور اس کے لئے وکالت کرنے والی دیپکا راجاوت اور پھر اس عصمت دری کیس کی جانچ کرنے والے پولس آفیسرکے ساتھ ساتھ میڈیکل کے ڈاکٹر وں ،جو سب کے سب غیر مسلم ہیں ، ان لوگوں نے جس انصاف پسندی کا مظاہرہ کیا ہے ، اس سے یہ پیغام عام ہوا ہے کہ آج بھی ملک میں انسانیت زندہ ہے ۔ایک طرف چند لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت بانٹ رہے ہیں تو دوسری طرف لاکھوں افراد ہیں جو درس انسانیت کے علم بردار ہیں۔ اور بلا تفریق مذہب و ذات انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ بالخصوص آصفہ کی وکیل دیپکا نے جس جرأت مندی اور انصاف پسندی کا مظاہر کیا ہے وہ ان تمام لوگوں کے منہ پر بڑا طمانچہ ہے جو اس غیر انسانی واردات کو مذہبی سیاست کی آگ میں جھونکناچاہتے تھے۔ قومی میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا نے بھی آصفہ واردات کو جس سنجیدگی سے لیا اس سے بھی ایک مثبت فکر بنی ہے ۔ ورنہ اگر ہماری میڈیا خاموش ہو جاتی تو شاید آصفہ کا معاملہ بھی دیگر ہزاروں معاملوں کی طرح رفع دفع ہو گیا ہوتا ۔ آصفہ واردات کے بعد قومی سطح پر ایک تعمیری فکر پیدا ہوئی ہے اور بچیوں کی عصمت دری کے خلاف عوام الناس میں غم و غصہ کا ماحول بنا ہے۔ اگر آصفہ کے لئے سڑکوں پر لوگ نہیں اترے ہوتے تو شاید اتر پردیش کے ایک ایم ایل اے کی گرفتاری بھی نہیں ہوتی اور آبرور یزی کے معاملے کی لیپا پوتی ہو کر رہ جاتی کہ وہاں کی پولس نے متاثرہ لڑکی کے والد کو زد و کوب کر کے موت کے حوالے کر دیا ۔ مگر قومی ذرائع ابلاغ کی حرکت نے یوگی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے ایم ایل اے کو سلاخوں کے پیچھے بھیجے۔ بہرکیف، اب جبکہ آصفہ واردات کے بعد مرکزی حکومت بھی نیا آرڈیننس لے آئی ہے اور اس پر صدر جمہوریہ کی مہر بھی ثبت ہو گئی ہے اور ا س نئے قانون میں بارہ سال سے کم عمر کی بچیوں کی آبروریزی کرنے والوں کو پھانسی کی سزا مقرر کی گئی ہے تو یہ یقین بنتا ہے کہ ملک میں معصوم بچیوں کے ساتھ حیوانی سلوک کرنے والوں کے اندر خوف پیدا ہوگا مگر سب سے بڑا سوال پھر یہی ہے کہ کیا اس قانون کا ایماندارانہ نفاذ ہو سکے گا؟ اگر پھر اس نئے قانون کے نفاذ میں ’’اگر مگر‘‘ کا رویہ اپنایا گیا تو شاید جس مقصد سے آرڈیننس لایا گیا ہے ، وہ پورا نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس انتظامیہ ملک و سماج کے مزاج کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دیں تاکہ یہ نیا قانون موثر ثابت ہو سکے اور آصفہ جیسی معصوم کی حفاظت یقینی بن سکے۔
موبائل9431414586