کھٹوعہ جموں میں آٹھ سالہ آصفہ کی آبروریزی اور بہیمانہ قتل کا درد اب متاثرہ خاندان، بکروال برادری یا مسلمانان ِ ریاست تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ تقریباً دوماہ بعد ملک بھر میں اس کی ٹیسیں صاف طور محسوس کی جاری ہیں ۔ یہ ا س کا بین ثبوت ہے کہ کا نگریس صدر راہل گاندھی ا ورمرکزی وزیر وی کے سنگھ سے لے کر ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا ، سرکردہ فلمی ہستیاں آصفہ کے حوالے سے اب شریک ِغم ہی نہیں بلکہ اس معصومہ کے لئے انصاف کی طلب گار بھی ہیں ۔ تاخیر سے ہی سہی بہر حا ل مظلومہ بچی کے لئے انسانی ضمیر جاگ اُٹھاہے ۔ اس سلسلے میں رائے عامہ مظلومہ کی حمایت میںاور ظالموںکے خلاف بن چکی ہے۔ اُمیدیہی کی جانی چاہیے کہ انسانیت کے خلاف سنگین جرم میں زیر حراست آٹھوں ملوثین کو از رُوئے قانون اپنے کئے کی سزا دی جائے گی ،یہی ایک فارمولہ ہے جس سے وومنز ایمپاورمنٹ کا نعرہ حقیقت کاروپ دھار لے گا اور بیٹی بچاؤ کا آندولن محض ایک ڈھکوسلہ بن کر نہ رہے گا ۔ ملکی سطح پر آصفہ کے تئیں ہمدردی اور متاثرہ غم زدہ کنبے کے ساتھ اظہار یکجہتی کا نتیجہ اب جو کچھ بھی ہو وہ اپنی جگہ ،یہ صورت حال اس بات کاایک مثبت اشارہ ہے کہ ابھی انسانیت نہیں مری ہے ۔ ایک اور پہلو سے آصفہ ٹریجڈی تمام لوگوں کے لئے بلاتمیز مذہب وملت چشم کشا ہونی چاہیے کہ یہ جرم و گناہ کی ناقابل بیان داستان ہی نہیں جس کے پس پردہ محض شہوانی ہوس کارفرما ہے بلکہ جو حقائق اس کیس کے بارے میں پولیس کرائم برانچ نے منظر عام پر لائے ہیں ،اُن کو دیکھ کر کسی بھی شخص کے ہوش اُڑسکتے ہیں ۔ ملزمین کے خلاف جو چارج شیٹ یا چالان کٹھوعہ عدالت میں کرائم برانچ نے مقامی فرقہ پرست وکلاء کی افسوس ناک دھماچوکڑیوں اور سیاسی دنبال کے باوجود پیش کیا،اُس سے واضح ہوتا ہے کہ اس گھناؤنے جرم کے مرتکبین کی اصل نیت یہ تھی کہ آصفہ کو بلی چڑھاکر بہ حیثیت مجموعی جموں کے سنہ ستالیس کی طرح مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا جائے ، خاص کر گجر بکروال طبقے کو کھٹوعہ سے ماربھگایا جائے تاکہ اس فرقہ پرستانہ عمل کو ایک ہیبت ناک شکل میں پروان چڑھا کر صوبے میں فرقہ پرست ووٹ بنک کو تقویت مل جائے ۔ ان سیاہ باطن عزائم کو عملانے کی پاداش میں آصفہ کی پہلے عزت لوٹی گئی اور بعد میں اس غریب بچی کو ناقابل معافی اذیتیں دے دے کر قتل کیاگیا ۔ ذرا سوچئے کہ اگر اس مجرمانہ سازش کے پیچھے ملزموں کا بنیادی انسان دشمنانہ مقصد کا میابی سے ہمکنار ہواہوتا، تو آج صوبہ جموں کے بے یارو مددگار مسلمانوں کا کیاحال احوال ہوتا؟ چونکہ آصفہ کا خون ِ ناحق فوراًرنگ لایا اور ملزموں کی نشاندہی کے بین بین وہ ساری رام کہانی سرکاری سطح پر مشتہر ہوئی جسے سن کر ہر باشعور اور مہذب انسان کے کلیجے پر چھریاں چلتی ہیں،اس لئے اب کی بار معاملے کی وہ دُرگت نہ ہوئی جو شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر کے بارے میں حکومتی اور تحقیقاتی سطح پر بنائی گئی۔ حا لانکہ آصفہ کے خلاف سنگین جرم میں میں ملوث گناہ گاروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کئے جاسکیں،اس کے لئے جموں کے فرقہ پرستوں نے ہندوایکتا منچ کے جھنڈے تلے خوب رقص نیم بسمل کیا ، انہوںترنگا کو درمیان میں لاکرسنگھرش سمتی کی کشمیر بائیکاٹ کی یادیں تازہ کیں، انہوں نے حقیقت کو جذباتی استحصال کے پردے میں دبانے کے واسطے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ، بلات کاری افراد کو جیل سے چھڑوانے کے لئے بھوک ہڑ تال کا ہتھکنڈا بھی آزمایا، ملزموں کی علی الاعلان حمایت میں مخلوط حکومت کے دو جموی وزارء مظاہرین کے حق میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے سامنے بھی آگئے ، اس جرمِ عظیم میں ملوث آدم خوروں کی پردہ پوشی کے لئے آصفہ کے کپڑے بھی پولیس کے تفتیش کاروں نے دھودئے تاکہ جرائم کی جانچ کر نے والی فورنسک لیباٹری مجرموں کی شناخت میں بے دست وپا ہوکر رہے۔ یہ سارا کچھ جس منظم انداز میں ہو تارہا، اس سے یہی اخذ ہوتا تھا جیسے فرقہ پرست عناصر گاندھی جی کے ہتھیارے نتھورام گوڈسے کو دیوتا قرار دے رہے ہیں یا جیسے یہ عقلاور اخلاق سے عاری ہجوم دلی کے دومعصوموں کے قاتل گیتا چوپڑہ اور اور سنجے چوپڑہ کے قاتلوںرنگا اور بلا کو اپنا ہیرو جتلا رہے ہوں۔اگرچہ سنجیدہ لوگوں کی خاموش اکثریت اس بابت انگشت بدنداں تھی کہ ریپ جیسے قابل گردن زدنی جرم میں ملوثین کے حمایت میں فرقہ پرستوں کا کھٹوعہ میں ریلیاں نکالنا ، ترنگے لہرانا ، پولیس انکوائری پر بلاوجہ شک وشبہ کا اظہار کرنا ، بے ہودگی کی حدیں پھلانگ کر کیس کو سی بی آئی کے سپرد کر وانے کے لئے ہائی کورٹ بارایسویایشن جموں سے’’ جموں بند‘‘ کی ناکام کال دلوانا وغیرہ سراسر مجرموں کی پیٹھ ٹھونکنے کے مترادف تھا مگر کسی ایک فردبشر کو یہ توفیق نہ ملی کہ آصفہ کے حق میں دکھاوے کے لئے ہی دولفظ زبان سے ادا کر کے فرقہ پرستوں کی ناقابل فہم کرتوت کی نکتہ چینی کرے ۔اس حوالے سے ہوا کا رُخ اُس وقت یکایک بدل گیا جب اُناؤ اُترپردیش میں بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کے جرم کے خلاف رائے نے کڑارُخ اختیار کیا۔ایک سال قبل ایک ہندودوشیزہ نے پولیس تھانے جاکر الزام لگایا تھا کہ ایم ایل اے موصوف اور اس کے دیگر درندہ صفت ساتھیوں نے اس کے ساتھ اجتماعی طور بہ جبر منہ کالا کیا ہے ،متعلقہ پولیس اتھارٹیز نے مذکورہ ممبر اسمبلی کی سیاسی قوت اور غنڈہ گردی کے پیش نظر اس کے خلاف کوئی قانونی ایکشن لینا تو دور ایف آئی آر تک درج نہ کیا ۔ سال بھر پولیس کی منت سماجت کے باوجود جب مظلوم لڑکی وردی پوشوں سے اپنا فرض اداکروانے میں ناکام رہی تو اس نے بالآخر انصاف کی دہائی دینے کے لئے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کے سرکاری بنگلے کے سا منے آتم ہتھیا کا من بنایا۔اس سے سٹپٹا کر مذکورہ ایم ایل اے نے اپنے بھائی سمیت غنڈوں کے ہاتھوں مظلوم لڑکی کے باپ کی مار پٹائی کر اکے اسے تھانے میں بند کروایا۔ تھانے میں پولیس والوں نے زیر حراست مظلوم باپ کا اتنا زدوکوب کیا کہ وہ دم توڑ بیٹھا۔اسی ایک جانکاہ خبر نے بھارت بھر میں گشت لگاکر ہر قبیل وقماش کے لوگوں کواس قدر سیخ پا کیا کہ وہ مودی اور یوگی کی حکومت میں صنفِ نازک کے ساتھ صریح ظلم وزیادتی کے خلاف کمرہمت باندھنے پر آمادہ ہوئے اور انہیں آصفہ بھی یاد آئی۔ بہر صورت اب تاریخ اس دن کا بے صبری سے انتظار کر ے گی جب اجتماعی ضمیر کی تشفی کے ساتھ ساتھ قانون کی عملداری کے لئے آصفہ کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا ۔