کشمیری بھائیو اور بہنو!سب مل کے ناچو گائو کہ خوشی سے ناچنے کا زمانہ آگیا ۔ سارنگی اور سنتور کے راگ چھیڑو۔ڈھول تاشے بجائو۔ روف اور ونہ وُن گائو، دمال مچا کر اچھلو کودو۔ قلم دوات والی بانوئے کشمیر ہل والے قائد ثانی سے ملنے پہنچیں اور قوم کے غم میں ڈنر کے بدلے (ہائی ٹی) High Teaپینے کا پروگرام بن گیا۔ یہ میٹنگ کوئی عام خام نہیں بلکہ اہل کشمیر کے فائدے کے لئے ہی نہی بلکہ سمجھو ان کے سارے دکھ درد دور ہوجائیں گے۔کوئی یہ نہ کہے کہ اپنے کرسی نواز سیاستدانوں کے پا س کشمیر موافق ایجنڈا نہیں ، اس لئے با ادب با ملاحظ ہوشیار، کان کھول کر کہانی سنو ؎
میں 10%تم دس نمبر دونوں مل کر کچھ کر جائیں
اک تازہ ڈھونگ رچاتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
اک دوجے کے دشمن تھے یہ یاسر جی کچھ دن پہلے
اب دونوں یہ فرماتے ہیں آئو مل کر کھاتے ہیں
اتنا ہی نہیں بانوئے کشمیر دوسرے سیاست دانوں سے ملاقی ہوئیں کہ کشمیر کے غم میں ان کی آنکھو ںسے مسلسل آنسو ٹپک رہے ہیں۔کیوں نہ ہوں مہاراجہ کے ٹائم کا آرڈر منسوخ ہونے کی دہلیز پر ہے ۔پھر کشمیری اپنے وطن میں ہی اقلیت میں چلے جائیں گے۔ان کی زمین ،نوکریاں سب کچھ دائو پر لگ جائیں گی۔ویسے اپنے ہل والے قائد ثانی کے ترکش میں نت نئے تیر موجود ہیں اور جب بھی انہیں وار کرنا ہوتا ہے تو وہ بلا دریغ تیر نیم کش چلاتے ہیں تب وہ آگے پیچھے کچھ نہیں دیکھتے بلکہ مخالف سیاست دانوں کو میدان عمل میں کودنے کی ترغیب دیتے ہیں۔پھر میر آف دہرن کیا، حکیم آف کھاگ کیا، تاریگامی آف کولگام کیا، حسن میر آف ٹنگمرگ سب کو ساتھ لے کر تیکھا وار کرتے ہیں۔انہیں پتا ہے کہ قلم دوات والے تو پہلے ہی ہل گئے ہیں ،وہ تو مرد مومن کا کوئی خواب بھلے ہی پورا نہ کر پائے لیکن دن رات انہی خوابوں کی دہائی دیتے ہیں جن کی کوئی تعبیر دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اس کے لئے مفتی آف بجبہاڑا کا فتویٰ ہونا چاہئے ،ینگ مفتی کی سینمٹوگرافک آنکھیں ہونی چاہئے یا پیر صاحب آف بنڈپور اور قاضی گنڈ کا تعویذ گلے میں لٹکتا ہو۔ کنول والے بھی لرز اٹھتے ہیں کہ اونچا رہے گا ہل والا جھنڈا کا جو نعرہ لگا تو بھاجپا کے اوزار حرب و ضرب، شیو سینا کے ترشول میں زنگ تو لگتا ہی ہے ۔ مزید بر آں سیوک سنگھ کی چھوٹی لمبی چڑیاں گیلی ہوتی ہیں ۔اسی لئے اب وہ کہتے ہیں کہ کنول کی قسم جو کچھ کہیں گے سچ سچ کہیں گے، جب تک ملک کشمیر میں آپسی گٹھ جوڑ موجود ہے ۳۷۰ یا ۳۵۔ اے کی مخالفت نہیں کریں گے۔انہیں بھی سارے ہون بھجن کرکے ملک کشمیر میں سرکار ملی ہے ،اس کو گنوانے کا کام بھلا کیوں کریں؟ہل والے قائد اور ان کے پیادہ فوجیوں کے سامنے تو مملکت خداداد کے ہدف میزائل، ڈونالڈ ٹرمپ کی دھمکیاں بھی پھیکی پڑتی ہیں۔اسی لئے جو قائد ثانی نے 35-A سے متعلق معاملے پر اعلان جنگ چھیڑ دی تو بانہال کے آر پا لرزہ طاری ہوا کہ اب کی بار مودی مفتی سرکار کو بڑے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔معاملہ صاف ہے Finally مطلب بالآخر ہل والوں نے فیصلہ لے ہی لیا ہے کہ اٹانومی لے کررہیں گے، 370 اور 35A کی حفاظت میں سینہ تان کر کھڑے ہوںگے ۔آگے پیچھے جو کچھ ہوا اس کو ہم بھولنے کو تیار ہیں، بلکہ معاف کرنے سے نہیں کترائیں گے یا معافی مانگنے سے بھی ہم کو کوئی نہیں روک پائے گاکیونکہ ہم نے اتنے سال دیکھا اور پایا کہ آٹانومی ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ہم نے ماضی میں ایک دستاویز بھی بھیجا تھا اور تم نے جو اس کو پڑھے بغیر ردی ٹوکری میں دفن کردیا ۔حالانکہ ہم کو اس کا بڑا ملال ہے ،غصہ بھی ہے لیکن ہم سب کچھ بھلانے کو تیار ہیں۔اسی لئے ہم نے بھری محفل میں اعلان کردیا کہ آٹانومی دو اور کشمیر لو۔یہ تم شاید نہ سمجھو لیکن آٹانومی جادو کی چھڑی ہے،جسے گھمائو تو سارے مسلوں کا حل نکل آتا ہے۔اس سے اہل کشمیر اقوام متحدہ کو بھول جائیں گے،قراردادوں کو فراموش کردیں گے،شملہ معاہدے کو پس پشت ڈال دیں گے۔گولیوں کے زخم، افسپا کے گھائو، پیلٹ گن کے سوراخ، مرچی گن کا تیکھا پن، اشک آور کی بدبو ، ٹاسک فورس کی توپیں غرض سب کچھ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیں گے۔ آٹانومی کوئی ایسی شئے نہیں کہ تمہیں ہمیں دینے میں دقت پیش آئے۔یہ تو پہلے بھی ہمارے پاس تھی، پھر ہم نے اقتدار میں رہنے کے لئے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے بیچ بازار بیچ دیا ۔اسی لئے ہم کو اٹانومی دو اور اس کے حصول تک ہم زیرو برج سے لے کر گپکار تک جلسے جلوس نکالتے رہیں گے اور ہم ہیں کہ مطالبہ کرتے رہیں گے۔ہمارا سیاسی دل دھڑکانے میں اس کا اہم رول ہے ۔یہ جو آٹونامی اور ۳۷۰؍ والا نعرہ ہے، اس پر تو ہماری سیاسی زندگی کی معیاد منحصر ہے ۔مانا کہ اس سے ہمیں زیادہ محبت نہیں لیکن کسے نہیں معلوم کہ الیکشن کے وقت پھر ہمیں نئے نعرے ایجاد کرنے پڑیں گے ، یہ جو ملک کشمیر کی قوم ہے انہیں پرانے نعرے گلے نہیں اترتے نئے نویلے نعرے بھاتے نہیں ۔اور بھائی !آخری بار سن لو بھلے تم آٹانومی نہ بھی دو، 370؍ اور 35A ؍کو عدالتی نظام سے تہ تیغ کردو پھر بھی ہم پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ اسی لئے تو جہاں سپریم کورٹ میں دفاع کرنے کی ضرورت ہے ،ہم اپنی مجبوری کے سبب گپکار پر جلوس نکالتے ہیں تاکہ مودی سرکار ناراض ہو کر ہمارے کان کھینچنے پر تل نہ جائے ۔یہ حریت والے تو انکم ٹیکس ، این اے آئی کے حملے برداشت کرنے پر مجبور ہیں لیکن ہم میں اتنی سکت نہیںاور پھر اس کے چلتے بانوئے کشمیر دلی دربار پہنچی کہ مودی جی ، راجناتھ چاچو کچھ کرو کہ یہ کرسی کا معاملہ ہے کوئی دل لگی نہیں۔
کریں بھی کیا ہل والا نیشنلی پپو ملک کشمیر میں جو پاس نہیں ہو رہا توخود دانتوں کے بغیر نیشنلی ٹائیگر کو میدان میں اترنا پڑا۔مانا کہ ادھر ملک کشمیر میں ایسا ویسا ٹائیگر تو ہے کہ پپو کی مدد کرنے میدان میں اُترا لیکن دلی میں پنجے والا پپو کسی بھی صورت پاس نہیں ہورہا۔اسے تو بھاجپا کے منہ خون لگے ٹائیگر نے کہیں کا نہیں رکھ چھوڑا، اسی لئے وہ ایک شہر سے دوسرے بنا بتائے بھاگ جاتا ہے یا کانگریس کی چاچی کے پلو میں چھپ جاتا ہے کہ بچا لو کہیں کاٹ نہ کھائے کوئی۔
چلو جی! عیش کرو اب تاریخ اور سائینس کا نیا سبق پڑھو۔ ہوائی جہاز تو کب کا ہندوستان میں چلا تھا شاید کورو اور پانڈوئوں کی لڑائی میں بم جہاز سے ہی برسائے گئے تھے۔وہ جو شاہجہان نے تاج محل اپنی چہیتی بیگم ممتاز کے لئے بنوایا تھا وہ سب جھوٹ بتا رہے ہیں۔ہو نہ ہو بادشاہ کے پاس کاریگروں اور مزدوروں کے ساتھ قیمتی پتھروں کے لئے پیسہ ہی نہ تھا تب کہیں سری سری ساورکر سے ادھار لیا ۔ادھار نہ چکانے کے عوض تاج محل پراپرٹی سری سری کی ہوگئی۔اسی لئے تو مہاراشٹر کی کتابوں سے مغل ہٹے۔گجرات میں مسلم دور کا ذکر مٹااور جو بھارت چھوڑو میں انگریز سرکار کی حمایت کرتے تھے وہ اب گاندھی کو پیچھے چھوڑ گولوالکر کی کہانی بچوں کے ذہنوں میں انجکشن سے داخل کرادیں ۔جبھی تو نئے بھارت ورش کا نرمان ہوگا۔سنگھ پریوار کی جے جے کار ہوگی ، پھر پورے بھارت میں اگر ہاہاکار مچی تو ہم کیسے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟
اور پھر اپنے ملک کشمیر والی فوجی اسٹیٹ میں سب کام تو فوج ہی کرتی ہے ۔ووٹ دینے والوں کو بونٹ سے باندھنا، پٹھانی سوٹ سے عسکری لشکر ڈھونڈنے کا کام، پولیس والوں کی پٹائی کا کام، اب تو سنا ہے کہ راشٹر گان گائے جانے کا کام بھی فوج ہی لیتی ہے۔دروغ بر گردن صحافی سیما مصطفی جس نے یہ اطلاع دی کہ پہلگام اسکول میں فوجی گھسے ،ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، اسٹاف کو ڈرایا دھمکایا ۔ڈسپلن ہوتا تو کاہے کو بچوں کومارتے پیٹتے بلکہ بچوں کو قومی ترانہ گانے کا حکم سدبھاؤنا سے دیتے اور وہ بھی پیار سے ۔ ان کا تو پیار بھی نرالا ہے ۔ ویسے زبردستی جب کوئی چیز ہو تو ڈر کے مارے بول کچھ اور ہی منہ سے نکلتے ہیں۔ شاید جو الفاظ ہکلاتے ہوئے نکلے ہونگے وہ سنئے اور سر دھنئے
سٹین گن من ادی کھل نائک جے ہے
سینا در بھاگیہ ودھاتا
ینیر، ترال، پانپور ،کپوارا
ڈرائو گاندربل ،شوپیان ، بمنہ
تو صبح مار پیٹ مانگے
تو شام آتش مانگے
اور پھر جب وردی کے بدلے جینز پہن کر اور سامان ضرب و حرب ہاتھ میں لئے پوری بستی کو یرغمال بنا کر رکھ دے تب تو بات ہی اور ہے۔تب پیلٹ، گولی کیا پتھر کیا۔چینی مال کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ایسا لوگ کہتے ہیں کہ وہ تین اقسام کی چیزیں بناتے ہیں ،ایک بر آمد کے لئے، ایک پاکستان کے لئے، ایک اپنے ملک میں کھپت کے لئے۔یہ جو ڈوکلام ( بھوٹان سرحد)قضیہ بھی لگتا ہے چینی مال جیسا ہی ہے جس کی کوئی گارنٹی نہیں ۔آئے دن دھمکیاں دیتے ہیں لیکن کرتے ورتے کچھ نہیں۔ ہند چین قضیہ نہ ہوا کسی حسینہ کے گیسو ئے دراز ہوں کہ دل کی طرح الجھ ہی جارہے ہیں۔ انہیں شاید نہیں معلوم کہ ملک کشمیر میں اتنی فرصت نہیں ۔ہم تو وہ ہیں جو آزادی کے لئے بس شالی کی بالیاں پکنے کا انتظار کئے، دو دن انکاوئنٹر یا فائرنگ نہ ہو تو بس کہتے ہیں کہ ہوگیا ختم فسانہ، کوئی نہ مارا نہ جائے تو اخبارات مروڑ کر پھینکتے ہیں۔پھر ہندی چینی بھائی بھائی تماشہ کتنی دیر سہیں؟ مطلب کچھ کرنا ہے تو فوراً کرو نہیں تو ہم یہ خبر یں سنانا بند کردیں۔
رابط[email protected]/9419009169