معراج وانی
نرم بادلوں کی چھاؤں، خنک ہوا کے جھونکے، اور نہر کے کنارے درختوں کی سرسراہٹ جیسے قدرت خود کوئی نغمہ گنگنا رہی ہو۔ سرسبز گھاس پر بیٹھا کاشف جیسے وقت سے پرے کسی اور ہی دنیا میں تھا۔ اُس کے سامنے وہ تھی،جَلی، خوابوں کی پری، خیالوں کی ملکہ۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں چھپے جذبات کو پڑھ رہے تھے۔ لفظوں کی حاجت نہ تھی، نینوں کی زباں سب کچھ کہہ رہی تھی۔
“کتنے پرسکون ہو تم جب چپ رہتے ہو”، جلی نے مسکرا کر کہا۔
کاشف ہولے سے مسکرایا، “تمہیں دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ دنیا کا ہر شور تھم گیا ہے… ہر زخم بھر گیا ہے۔”
نہر کا پانی جیسے اُن کے دلوں کی گہرائیوں کو چُھو رہا تھا۔ وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ پُر کیف ہوا میں اُس کی پائیلوں کی چھن چھن خوشبو کی طرح بکھری ہوئی تھی۔
کاشف کے دل کا بوجھ اُتر چکا تھا۔ کوئی فکر، کوئی درد، کوئی پچھتاوا باقی نہ رہا۔ وہ تھا، جلی تھی اور ایک بےنام سکون۔
“تم ہمیشہ رہو گی نا میرے ساتھ؟”
جلی نے نظریں چرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کچھ نہ بولی۔ ایک لمحہ گزرا… پھر دوسرا… اور تب اچانک، فضا میں کچھ بدلا۔
وہ اٹھی، اُس کے قدم پیچھے ہٹے۔ کاشف نے چونک کر اُسے دیکھا، “کہاں جا رہی ہو؟”
وہ خاموش رہی۔ پائیلوں کی چھن چھن سنائی دی، اور اُس کا وجود دھندلا ہونے لگا۔
“نہیں… جلی… کچھ پل اور… بس کچھ پل اور!” کاشف نے پکارا۔
لیکن اُس کی آواز خلا میں تحلیل ہو گئی۔
اور تب…
ٹرن… ٹرن… ٹرن…
کاشف کی آنکھ کھل گئی۔
آنکھیں نیم وا تھیں، خواب کی روشنی ابھی باقی تھی، لیکن حقیقت کا پردہ اٹھ چکا تھا۔ ہاتھ میں موبائل تھا اور اس پر صبح کے چار بجے کا الارم بج رہا تھا۔
کاشف نے تھکی ہوئی سانس لی، الارم بند کیا، اور نیم نیند کی حالت میں سر تکئے پر رکھتے ہوئے بس اتنا کہا:
“سونے دیتے یار آج مجھے… کچھ پل اور۔”
آج بیس سال بعد ملاقات ہوئی تھی
���
ساکنه ـ پالپورہ کنگن ، کشمیر
[email protected]