عبدلمجید بھدرواہی
رات نہ جانے کتنی بیت چکی تھی ۔ بجلی بھی نہیں تھی اور بارش مسلسل برس رہی تھی۔ کمرے کے اندر اور باہر کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا جس کی وجہ سے میں ہڑ بڑاتا ہوا جاگ گیا۔ وقت دیکھنے کے لئے میں نے اپنی کلائی کی گھڑی کافی ڈھونڈی مگر اندھیرے کی وجہ سے مل نہ سکی ۔ میں نے اپنے پاس رکھا ہوار یڈیو آن کیا کہ شاید اناؤنسر وقت بتائے مگر وقت کا پتہ نہ چل سکا البتہ ریڈیو پر یہ گانا چل رہا تھا’’ کچھ دیر تو رک جاتے برسات کے بہانے“
مجھے وقت معلوم نہ ہو سکا۔ میں گانے کے بول پر دھیان دے ہی رہا تھا کہ میری نظر دروازے کی جانب اٹھی اور میں نے اسے اندر آتے ہوئے دیکھا۔ شاید میں سونے سے پہلے اندر سے دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا۔ بارش کی اس گھپ اندھیری رات میں اسے اچانک اندر آتے دیکھ کر میں بے حسی کی حالت میں اس کے استقبال کے لئے کھڑا ہو گیا۔ مجھے اس کے اس طرح آنے کی ذرا بھی امید نہ تھی۔ اس لئے میں یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکا کہ میں اچانک اس کا استقبال کیسے کروں۔ اسے سلام کروں، اس سے بغل گیر ہو جاؤں یا اس کا ماتھا چوموں؟ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے۔ میری زبان لڑکھڑانے لگی ۔ ہونٹ خشک ہو گئے ۔ پاؤں تھر تھرانے لگے۔ میں مشکل سے کھڑا رہنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کس طرح سے اس کا استقبال کروں کیونکہ وہ اتنی مدت کے بعد بغیر کسی اطلاع کے آرہی تھی ۔
میں اس کی اچانک آمد پر خوشی اور حیرت کے امتزاج سے مانو پاگل سا ہو گیا تھا اور کچھ بھی فیصلہ نہ کر پارہا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے لڑکھڑاتی اور لکنت بھری زبان سے اسے صرف اسلام علیکم کہا۔ اس نے اس کا جواب دیا کہ نہیں میں نے نہیں سنا۔ میں نے دل ہی دل میں اس سے سوالات پوچھنے کی فہرست مرتب کرنا شروع کی کہ پہلے یہ سوال پوچھوں گا پھر وہ بات دریافت کروں گا پھر اور پھر وہ جواب دے گی۔ میری خیر و عافیت پوچھے گی اور پھر میرے دوسرے حالات کے بارے میں دریافت کرے گی۔ وغیرہ وغیرہ، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ صرف خاموش کھڑی کھڑی مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے حالات کا بخوبی جائزہ لے رہی ہے۔ ایک دو بار تو مجھے ایسا لگا اس کی آنکھیں اشکبار ہو رہی ہیں۔ میں اس سے اس کی وجہ نہ پوچھ سکا۔ اسے دیکھتے دیکھتے ہی میرا پیٹ نہ بھر رہا تھا۔ میں اپنے آپ کو زبردستی یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ واقعی گھر واپس لوٹ آئی ہے اور میں مارے خوشی کے پھولے نہ سمارہا تھا۔ اب میں نے اپنے حواس پر قابو پا لیا تھا اس لئے بڑی ہمت جٹا کر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا اتنی دیر بعد تجھے میری یاد کیسے آئی، اتنی دیر تک تو کس طرح میرے بغیر رہ پائی ، میں تو تیرے بغیر پل پل مر رہا تھا۔ اتنی مدت میں نے تیرے بغیر کیسے گزاری یہ میں ہی جانتا ہوں۔ دنیا کی ہر چیز مجھے سونی سونی لگتی تھی، ہر طرف مایوسیاں اور ویرانیاں دکھائی دیتی تھیں ۔ مجھے کسی بھی چیز میں نہ تو دلچسپی تھی اور نہ کسی شے میں لطف آ رہا تھا۔ بس تیرے بغیر میرا جینا مشکل ہو گیا تھا۔ ہر کسی سے کہنا کہ مجھے جینے میں مزہ ہی نہیں آرہا ہے میرا روز مرہ کا معمول بن گیا تھا۔ میرا یہ دکھڑا ایک دو بار تو ہر کوئی سنتا تھا مگر جب میں ایک ہی بات بار بار دہراتا تو لوگ میرانداق اڑاتے ۔ وہ مجھ سے بات کرنے سے کتراتے تھے۔ وہ مجھے دیکھتے ہی کہتے ”لودہ آگیا دیکھ ابھی شروع کرے گا اپنی رام کہانی ‘‘، میرا یہاں دل نہیں لگتا، میں مرنا چاہتا ہوں ۔ اب کیا مزہ رہا ہے اس جینے میں لوگ ہر روز مجھے طرح طرح کی باتیں سناتے تھے، چلو اب اچھا ہوا ۔ پھر سے اجڑے دیار میں بہار آئی ، وہی زندگی کا مزہ ، وہی رونق ، وہی چہل پہل جیسے پہلے تھی اب پھر ہوگی !!!!
باہر اب بھی گھپ اندھیرا تھا اور بارش مسلسل ہورہی تھی لگتا تھا کہ رات کافی بیت چکی تھی۔ اب فجر کی نماز کا وقت ہونے والا تھا محلہ کی مسجد سے موذن نے اذان دینا شروع کی۔ میں اذان کی آواز کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ بھی انمہاک سے اذان کے الفاظ دہراتی اور یہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر جانے لگی ۔ بیٹا ! خدا حافظ میں اب چلتی ہوں۔ میں نے اتنی ہی اجازت لی تھی۔ میں صرف تیرا حال معلوم کرنے آئی تھی ۔ اپنا خیال رکھنا بیٹا ! یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ دور ۔ بہت دور ۔ اور میں بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
یہ میری ماں تھی جسے میں نہ جانے خیال میں یا عالم خواب میں ایک سراب کی طرح دیکھ رہا تھا۔
میرے لبوں پر یہ الفاظ آ کر ایسے منجمد ہو کر رہ گئے۔
ماں! کچھ دیر تو رک جاتے ”
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛88250 51001