مارکیٹ میں چلتے چلتے وہ اچانک بائیں جانب مڑ کر بولی۔
’’ بھیا۔۔۔ مجھے تنگ مت کرو۔مجھے ڈیوٹی کے لئے دیر ہورہی ہے۔‘‘
ایک چھوٹا سا بچہ اس کا دوپٹہ زور سے کھینچ رہا تھااور اس کو دکان کی طرف چلنے پر مجبور کر رہا تھا۔ دکان طرح طرح کے کھلونوں سے بھری پڑی تھی اور بچہ کھلونا خریدنے کے لئے اصرار کرتے ہوئے
’’ دیدی ۔مجھے وہ کھلونا خرید کر دو نا۔‘‘ اس نے Teddy bear کی طرف اشارہ کیا۔
’’دیکھ بھیا۔میری جیب میںاتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں تیرے لئے Teddy bear خرید سکوں۔حپ چاپ چلتے بنو ۔ورنہ میں تھپڑ ماروںگی۔‘‘
یہ سنتے ہی بچہ زمین پر بیٹھ کر پائوں پسارکے رونے لگا۔شگفتہ اس کو چپ کرانے کی کوشش کرتی رہی مگر بچہ رویئے جارہا تھا۔اتنے میںراہ چلتے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور شگفتہ ؔسے طرح طرح کے سوال پوچھتے رہے۔
’’بچہ کیوں رو رہا ہے؟اسے کیا چاہیے؟
وہ بوکھلا سی گئی۔کس کس کو جواب دیتی۔ وہ خود کو بے بس سی محسوس کرنے لگی۔ اس نے فوراََپرس سے چاکلیٹ‘چونگم‘بسکٹ نکال کر بچے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’تم میرے اچھے بھیا ہو۔یہ لو چاکلیٹ۔۔‘‘
بچہ باری باری چاکلیٹ، چونگم اور بسکٹ لے کر دور پھینکتا گیا۔اتنے میں ایک خوب رو نوجوان بچے کے سامنے آکر بولا’’بیٹا۔کیا چاہیے تم کو ۔‘‘
bear Teddy
’’بس اتنی سی بات پر تم رو رہے ہو۔ تم یہ رونا دھونابند کر دواور میرے ساتھ آئو۔‘‘
اس نے بچے کا ہاتھ پکڑ لیامگر وہ اپنی جگہ سے ہل ڈھل نہیں رہا تھا پھر اس نے بچے کو گود میں اٹھا کردکان کے سامنے لے جا کر کہا۔’’کون سا والا Teddy bearچاہیے۔‘‘
بچے نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’یہ بڑا والا Teddy bear‘‘
’’میں خرید کے دوں گا۔‘‘یہ سن کر بچہ بہت خوش ہوا۔
’’اچھا مجھے بتائو تمہارا نام کیا ہے۔‘‘
’’عاطف‘‘بچے نے بڑی معصومیت سے کہا
’’عاطف۔۔۔بہت اچھا نام ہے۔‘‘یہ سن کر بچے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’عاطف میرے ساتھ دوستی کرو گے۔‘‘
عاطف نے جھٹ انگلی اس کی انگلی سے ملا کر حامی بھر لی۔پوچھا
’’تمہارا نام کیا ہے انکل۔‘‘
’’جاوید پاشا‘‘
’’جاوید پاشا۔۔۔ہاہاہا۔یہ بھی کوئی نام ہوا۔‘‘عاطف کھلکھلاکر ہنسنے لگا۔
’’عاطف اب تم اپنی دیدی کے ساتھ چلے جائو۔‘‘
’’مگر Teddy bear ‘‘
’’میں کل خرید کے دوں گا۔‘‘
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کراس کواس کی دیدی کے پاس لے گیا۔بولا
’’اب یہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا۔‘‘
شگفتہ نے کوئی جواب نہیں دیامگر من ہی من میں سوچتی رہی۔
’’آخر اس نے بچے کوکونسی پٹی پڑھائی کہ یہ چپ ہوگیا۔‘‘
وہ بچے کا ہاتھ پکڑ کر جانے ہی لگی تھی کہ جاوید پاشا اس سے مخاطب ہوکر بولا۔’’آپ کس طرف جا رہی ہیں۔‘‘
’’بس تھوڑا آگے جانا ہے ۔‘‘یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔جاوید پاشا اس کو کچھ دیر کے لئے دیکھتا رہااور اس کے طرزتکلم پر بھی سوچتا رہا۔شگفتہ شکل صورت سے خوب صورت تھی اورمیانہ قد کی تھی۔
جاوید پاشا کی ڈیوٹی اسی علاقے میں تھی وہ آفس کی طرف تیز تیز ڈگ بھرتے ہوئے چل پڑا،اپنے روم میں جاکر جوں ہی وہ کام شروع کرنے لگاتو اس کی آنکھوں میں شگفتہ کی تصویر پھرنے لگی اور وہ بہت دیر تک اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔
اگلے دن وہ جلدی ہی آفس کے لئے نکلاکیونکہ اس نے بچے کو Teddy bear خرید کر دینے کا وعدہ کیا تھا مارکیٹ پہنچتے ہی اس نے دائیں بائیں طرف دیکھاتو بچہ کہیں نظر نہیں آیا۔کچھ دیر کے انتظار کے بعداس کی نظریں شگفتہ پر پڑیںجواسی جانب آرہی تھی وہ اکیلی تھی جاوؔید پاشااس سے مخاطب ہوکر بولا۔
’’محترمہ آپ بھائی کو ساتھ نہیں لائیں ۔میں نے اس سے ایک وعدہ کیاتھاجو میں پورا کرنے آیا ہوں۔‘‘
شگفتہ متعجب ہوکر بولی۔’’کون سا وعدہ‘‘
’’میں نے اس سے کہا تھاکہ کل Teddy bear خرید کر دوں گا کیونکہ اس وقت میری جیب میں کم پیسے ہیںاور وہ مان گیا تھا۔‘‘
’’دیکھئے اس وقت مجھے ڈیوٹی کے لئے دیر ہورہی ہے میں پلازہ ریسٹورنٹ میں ایک بجے لنچ کرتی ہوں وہیں بات کریں گے۔جاوید پاشا آگے کچھ بول نہ سکا۔ وہ آفس پہنچ کر اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔
’’یہ ہوبہومیرے خوابوں کی شہزادی کی طرح ہے وہی گول گول چہرہ‘سیاہ زلفیں‘جھیل جیسی آنکھیں‘گوری گوری رنگت۔۔۔۔شاید میں اپنی منزل کے بہت قریب ہوں۔‘‘
جاوید پاشا کے ذہن میں طرح طرح کے خیال آرہے تھے وہ بڑی بے صبری سے ایک بجنے کا انتظار کر رہا تھااور وہ ٹھیک وقت پر پلازہ ریسٹورنٹ پہنچ گیا۔اتنے میں شگفتہ بھی لنچ کرنے آئی ۔وہ لنچ کرتے کرتے بولی۔
’’اچھا جناب ! آپ کچھ فرما رہے تھے‘‘
’’محترمہ!میں کہہ رہا تھاکہ آج آپ نے اپنے بھیا کو ساتھ نہیں لایا ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہوتاکہ آپ نے اس سے وعدہ کیا ہے تو ضرور ساتھ لاتی۔گھر سے نکلتے وقت وہ بزرگوں سے کھیل رہا تھاکہ میںوہاں سے کھسک گئی۔‘‘
’’اگرآ پ کو اعتراض نہ ہوتومیںآپ کے ہاتھوں اس کوTeddy bear بھیج دوں۔مجھے بچوں سے بہت پیار ہے۔‘‘
’’آپ کومیرے بھیا پر پیار آرہا ہے ویسے وہ ہے ہی پیارا۔‘‘
’’ہاں بہت پیارا ۔ جیسی بہن نرم کومل ویسا بھیا۔‘‘
اپنی تعریف سن کر شگفتہ اندر ہی اندر خوش ہوئی’’دیکھئے میں بیچ بیچ میں اس کو ساتھ لاتی ہوں اور کسی دن خرید کر دیجئے گا۔‘‘
جاوید پاشاان لمحوں کو روک کے رکھنا چاہتا تھااس نے ویٹر کو آواز دی۔’’دو کپ چائے۔‘‘
چائے پیتے پیتے ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیںاور اس طرح ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔وہ روز پلازہ ریسٹورنٹ میںملتے اور باتیں کرتے رہتے۔
شگفتہ اچھے دل کی مالک تھی وہ ایک دو ملاقاتوں میں ہی بے تکلف ہو کرکسی سے بھی باتیں کرتی رہتی۔وہ خوب سج دھج کے رہتی۔ہمیشہ ہی خوب صورت اور جوان دکھنا چاہتی تھی۔ اس کو کبھی غصہ نہیں آتامگر کوئی اس کی عمر پوچھے تو بھڑکتی تھی اسی لئے خود کو دیدی کہلوانا پسند کرتی تھی۔
ادھر جاوید پاشاشدت سے اس کی طرف مائل ہوتا جارہاتھا۔غالباََ وہ اس کو چاہنے لگا تھا۔
ایک موقعے پر وہ پلازہ ریسٹورنٹ میں اس کا انتظار کر رہا تھاکہ شگفتہ بچے کے ساتھ لنچ کرنے آئی۔بچہ جاوید پاشا کو دیکھتے ہی پہچان گیااور بولا۔
’’دیدی اس دن والا انکل۔مگر یہ جھوٹا ہے۔‘‘
جاوید پاشا بھانپ گیاکہ بچہ سے جھوٹا کیوں کہہ رہا ہے اس نے بچے کو بلا کرکہا۔
’’آج میں تمہیں ضرور Teddy bear خرید کر دوں گا۔‘‘
اس نے بچے کو کھلونوں کی دوکان پر لے جاکرTeddy bear خرید کر دیا۔بچہ بہت خوش ہوا۔لوٹتے ہوئے جاوید پاشا نے بچے سے پوچھا۔
’’عاطف تمہارے گھر میں کون کون ہے۔‘‘وہ انگلیوں پر گن کر بولنے لگا۔
’’دادی‘دادا‘دیدی اور پاپا۔مگر انکل پاپا کہیں باہر گئے ہوئے ہیں‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ اپنی دیدی کی طرف دوڑ گیا۔جاوید پاشا چلتے چلتے سوچ رہا تھا کہ آج میں اس سے کہہ ہی دوں گا۔
’’میں تمہیں چاہتا ہوں۔‘‘ریسٹورنٹ کے اندر آتے ہی اس نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا۔
’’میں تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا جان ۔میں نے اپنی کمپنی میں تمہاری نوکری پکی کر دی ہے۔‘‘
یہ سن کر شگفتہ خوشی سے پھولے نہ سمائی اور عاطف پاپا۔پاپا کہتے ہوئے اس سے چمٹ گیا۔
دیکھ کرجاوید پاشا کے پائوں تلے زمین کھسکنے لگی۔وہ بے جان بت کی طرح ایک ہی جگہ ساکت ہوگیا۔ اس کی محبت کا تاج محل بن نہ سکا کیونکہ کچھ ایسی ہوا چلی ہے۔مائیں بیٹوں سے خود کو دیدی کہلوانے لگی ہیں۔
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر:-9906484847