کپوارہ// شمالی کشمیر کے سرحدی ضلع کپوارہ کے پنزگام کرالہ پورہ میں فوج کی ہاتھوں معمر شہری کی ہلاکت کے بعد ضلع انتظامیہ نے حکم امتناعی نافذ کرنے کے اعلان کیا تاہم جمعہ کی صبح کو پولیس نے لوڈ سپیکر کے ذریعے کرفیوکا اعلان کیا اور لوگوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی ہدایت دی۔ اس دوران پورے ضلع میں مکمل ہڑتال کی گئی جبکہ وادی کے دیگر کئی مقامات سرینگر، شوپیان، پلوامہ، سوپور اور بانڈی پورہ میں نماز جمعہ کے بعد پُر تشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ تفصیلات کے مطابق کپوارہ میں شہری ہلاکت کے خلاف حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں اور ضلع کے دیگر علاقوں میں مکمل ہڑتال کی وجہ سے زندگی مفلوج ہو کر رہی۔ضلع اتظامیہ نے امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے ضلع کے حساس علاقوں جن میں ترہگام ،کرالہ پورہ،کپوارہ،لال پورہ اور سوگام شامل ہیں ،میں بندشیں عائد کرنے کا اعلان کیا تاہم لوگوں کے مطابق جمعہ کی صبح کو پولیس نے لائوڈ اسپیکرکے ذریعے کرفیو کا اعلان کیا جبکہ لوگوں کو اس حکم نامے پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت دی۔ضلع کے پنزگام علاقے میں فورسز کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا لیکن کرالہ پورہ اور ترہگام میں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی جلوس نکالے گئے ۔فورسز نے کرالہ بازار میں داخل ہونے والی تمام راستوں پر خار دار تار بچھا کر ناکہ بندی کی تھی ۔ترہگام میں نمازجمعہ کے بعد فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ مظاہرین نے اگر چہ پولیس تھانہ کی جانب پیش قدمی کرنے کی کوشش کی تاہم فورسز نے مظاہرین کو منتشر کر نے کیلئے ٹیئر گیس شلنگ کی اور حالات پر قابو پا لیا۔اس دوارن عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے پنزگام کپوارہ میں فوج کی گولی لگنے سے معمر شہری کی ہلاکت کے خلاف ضلع تر قیاتی کمشنر کپوارہ کے دفتر کے باہر احتجاج کیا ۔انہوں نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فوج کے خلاف کیس درج کر کے تحقیقات کی جائے اور قصوواروں کو فوری طور گرفتار کیا جائے ۔ پولیس کی بھاری جمعیت نے انجینئر رشید کو حراست میں لیکر پولیس تھانہ کپوارہ میں بند رکھا۔ دریں اثناء پنز گام کرالہ پورہ کے فوجی کیمپ پر فدائین حملہ کے بعد فوج نے علاقے کے ایک بڑے حصے کو محاصرے میں لیکر تلاشی کاروائی دوسرے روز بھی جاری رکھی جبکہ علاقے میں فوج کی مزید کمک طلب کی گئی ہے ۔دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ کے بعد ایک جنگجو زندہ نکلنے میں کا میاب ہو اہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔ادھر ہائین ترہگام میں شام گئے دیر اس وقت حالات کشیدہ ہوگئے جب فورسز اہلکار اپنی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد واپس جارہے تھے کہ اس دوان سڑک مشتعل نوجوانوں نے فورسز پر پتھراؤ کیا جس کے بعد فورسز نے مظاہرین پر ٹائر گیس شلنگ کی اور علاقے میں حالات آخری اطلاعات ملنے تک پر تناؤ تھے ۔جمعہ کو فوج نے پنزگام اور اس کے مضافاتی علاقے جن میں ریڈی ،چوکی بل،ٹھنڈی پورہ،آلوسہ ،بابا پورہ اور راوت پورہ کی ناکہ بندی کی ۔فوج نے پنزگام اور دیگر علاقوں کے جنگلوں کی بڑے پیمانے پر تلاشی کاروائی شروع کی ہے جو دوسرے روز بھی جاری رہی۔۔ادھر فوج نے جاں بحق ہوئے جنگجوؤں کو کسی نا معلوم مقام پر سپرد خاک کیا ۔ دریں اثناء تفصیلات کے مطابق سرحدی ضلع کپوارہ کے پنز گام میں گزشتہ روز فوجی فائرینگ کے دوران ہوئی شہری ہلاکت کے خلاف جمعہ کو وادی کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جس کے دوران تشدد آمیز واقعات بھی پیش آئے۔ نمازجمعہ کی ادائیگی کے بعد نوہٹہ سرینگر میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا جب یہ جلوس اختتام پذ یر ہوا تو نوجوان مختلف حصوں میں تقسیم ہوئے تاہم پولیس نے ان کا تعاقب کرنا شروع کیا جس دوران احتجاجی نوجوانوں نے پتھرائو کیا۔پولیس نے احتجاجی نوجوانوں کو قابو کرنے کیلئے ان پر جوابی پتھرائو کے ساتھ ساتھ لاٹھی چارج کیا ۔جھڑ پوں کے دوران پتھر لگنے سے ایک ویڈیو جرنلسٹ فیرزاحمد وانی سمیت کئی افراد زخمی ہو ئے ہیں۔پولیس فورسز نے مشتعل مظاہرین کو تتر بتر کرنے کیلئے ٹیر گیس اور پائوا شلنگ کی جبکہ یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا ،جس دوران شہر خاص میں تشدد کی لہر نوہٹہ کے علاوہ گوجوارہ ،راجوری اور اسکے گرد ونواح علاقوں میں پھیل گئی ۔بعد نماز جمعہ نوہٹہ میں پھوٹ پڑے پُر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں نوہٹہ اور اسکے گرد ونواح علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں جبکہ ٹریفک کی نقل وحر کت بھی درہم برہم ہوئی اور گاڑیوں کو متبادل روٹوں کا استعمال کر نا پڑا ۔پلوامہ کے مرن چوک میں نماز جمعہ کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر امڈ آیا اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی شروع کی۔ نامہ نگار شوکت ڈار نے پلوامہ سے اطلاع دی ہے کہ فورسز نے جب انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی تو لوگ مشتعل ہوئے اور انہوں نے بیک وقت کئی اطراف سے فورسز پر زبردست پتھرائو شروع کیا۔ جب پتھرائو میں شدت پیدا ہوئی مظاہرین کو تتر بتر کرنے کیلئے پہلے لاٹھی چارج کیا گیا اور بعد میں اشک آور گیس کے گولے داغے گئے۔مظاہرین نے مزاحمت جاری رکھی اور فورسز نے انہیں منتشر کرنے کیلئے پائو اشیل بھی پھینکے جس کے نتیجے میں علاقے میں اتھل پتھل مچ گئی اور لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف بھاگتے دیکھا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس موقعہ پر مین چوک،مرن،چاٹہ پورہ اور ٹہاب تک سنگبازی کا دائرہ پھیل گیا اور سخت سنگبازی ہوئی جبکہ فورسز اور پولیس نے بھی ٹیر گیس گولوں کی بارش کی جبکہ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرینگ بھی کی۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس موقعہ پر پولیس اور فورسز چاٹہ پورہ میں داخل ہوئے وہاں پر مکانوں کی توڑ پھوڑ کی اور گاڑیوں کے شیشے کو بھی چکنا چور کیا۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ10 گاڑیوںکا نقصان کیا گیا اور مقامی لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران مجموعی طور پر4افراد زخمی ہوئے۔ قصبہ سوپور میں بھی بعد نمازجمعہ تشدد بھڑک اٹھنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔نامہ نگار غلام محمد کے مطابق مرکزی جامع مسجد سوپور سے بعد نماز جمعہ لوگوں نے شہری ہلاکت پر ایک احتجاجی جلوس نکا لا ۔جب یہ احتجاجی جلوس مین چوک سوپور میں پہنچا ،تو پولیس وفورسز نے مظاہرین کو تتر بتر کرنے کیلئے ٹیر گیس شلنگ کی ،جس پر مظاہرین مشتعل ہوئے اور فورسز پر پتھرائو کیا ۔اس کے ساتھ ہی نوجوانوں اور فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا جسکی وجہ سے قصبہ میں بعد نمازجمعہ تجارتی ،کاروباری ودیگر سرگرمیاں درہم برہم ہوئیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی متاثر ہوا ،یہاں بھی متعدد اہلکاروں سمیت کئی افراد مضروب ہوئے ۔معلوم ہوا ہے کہ بعد میں پر تشدد احتجاجی مظاہروں کی لہر بٹہ پورہ اور درگاہ چوک تک پھیل گئی ۔دونوں مقامات پر نوجوانوں نے فورسز پر پتھرائو کیا جبکہ جوابی کارروائی میں فورسز نے ٹیر گیس اور پائوا شلنگ کی ۔ بانڈی پورہ کے حاجن میں نوجوان سڑکوں پر نمودار ہوئے اور انہوںنے جلوس نکالنے کی کوشش کی تاہم راستے میں موجود پویس و فورسز اہلکاروںنے انہیں آگے جانے کی اجازت نہیںدی ۔نامہ نگار عازم جان کے مطابق جلوس میں شامل نوجوان مشتعل ہوئے اور انہوںنے پولیس و فورسز اہلکاروں پر پتھرائو کیا جس کے جواب میں پولیس و فورسز اہلکاروںنے ان کا تعاقب کر کے جوابی پتھرائو کیا جس کے بعد نوجوانوںنے گلی کوچوں میںاپنا مورچہ سنبھالتے ہوئے فورسز اہلکاروں پر پتھرائو جاری رکھا جس کے جواب میں پولیس کو شلنگ کرناپڑی ۔ کافی دیر تک طرفین کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔