بانہال//سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے 2000میں اعلان کیا تھا کہ 15اگست2007کو جموں سرینگر ریلوے لائن کو مکمل کر کے وادی میں ریل پہنچا دی جائے گی لیکن اب جب کہ 15اگست2017کی آمد آمد ہے ، اس اہم ریلوے لائن کی تکمیل کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے، اگر ماہرین کی مانیں تو اسے مکمل کرنے کے لئے مزید 8برس کا وقفہ درکار ہے ۔26 جون 2013میں بانہال اور قاضیگنڈ کے درمیان تعمیرہندوستان کے سب سے بڑے ریلوے ٹنل پیر پنچال ریلوے ٹنل کو قوم کے نام وقف کرکے وادی کشمیر کو ریل سروس کے ذریعے صوبہ جموں کے بانہال ریلوے سٹیشن سے جوڑا گیا۔جولائی 2002 میں کشمیر ریل پروجیکٹ کو قومی پروجیکٹ قرار دیا گیا اور پروجیکٹ کو 2017 مکمل کرنے کی ڈیڈ لائین رکھی گئی تھی لیکن زمینی حالات اور کام کرنے والے ارکان کے حکام کا کہنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک رہنے کی صورت میںبھی اسے مکمل کرنے میں ابھی کم از کم سات – آٹھ سال کا وقت درکار ہے کیونکہ اس خطے کی جغرافیائی صورتحال اور پہاڑی سلسلوں کے علاوہ ورکروں ، زمینداروں اور مقامی لوگوں اور عدالتی کیسوں کے مسائیل کی وجہ سے تعمیراتی کمپنیوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس عظیم پروجیکٹ پر ابتدائی تخمینہ لاگت ساٹھ ارب روپئے تھاجس میں ہر آئے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب تک کئی ٹنل دھنس گئے اور کئی زیر تعمیر ریلوے ٹنلوں کو منسوخ کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سروے کی غلطی اور مختلف زمینی صورتحال کی وجہ بتائی گئی۔ اگر چہ کشمیر ریل اگرچہ جموں۔ کٹرہ اور بانہال۔ بارہمولہ کے سینکڑوں گاوں ودیہات ریل رابطے سے اب تک جوڑے جا چکے ہیں اور روازنہ ہزاروں عام لوگوں ، طالب علموں ، سینکڑوں مریضوں ، تاجروں ، دوکانداروں ، سیاحوں ، ویشنو دیوی اور شری امرناتھ کے درشن کیلئے انے والے لاکھوں یاتریوں کیلئے راحت کا سامان بنی ہوئی ہے۔ تاہم ابھی بھی بانہال اور کٹرہ کے درمیان سخت جغرافیائی حالات میں کام جاری ہے.جموں سے بارہمولہ تک اس ریلوے لائین کی لمبائی 345 کلومیٹر ہے اور اس پر دو درجن کے قریب اہم ٹنل اور150سے زائد چھوٹے بڑے پ±ل اور29ریلوے سٹیشن قائم کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا عمل جاری ہے۔ اس پروجیکٹ پر ریاسی ضلع میں دریائے چناب سے 359 میٹر اونچا پ±ل بھی تیار کیا جارہا ہے اور گیارہ کلومیٹر لمبے بانہال قاضیگنڈ ٹنل کے علاوہ کھڑی سے سمبڑ تک 13 کلومیٹر کے سب سے لمبے ریلوے ٹنل کی تعمیر بھی جاری ہے۔ ریلوے کے ایک افسر عبدالبصیر بالی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بانہال اور وادی کشمیر کے درمیان آجکل 22 ریل گاڑیاں آتی اور جاتی ہیں اور تقریباً ہر گھنٹے بعد بانہال اور سرینگر سے ایک ریل گاڑی ریلوے کے مقرر اوقات میں نکلتی ہے اور ان میں چند ریل گاڑیاں صرف چند ہی سٹیشنوں پر رک کر مسافروں کو کم وقت میں اپنی منزل تک پہنچاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریل سروس کے شروع ہونے کے بعد سے روزآنہ تیس ہزار سے زائید مسافر بارہمولہ۔ بڈگام ، سرینگر ، اننت ناگ ، قاضیگنڈ اور بانہال کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ریلوے سے جڑے ایک تاجر ریاض احمد وانی کا کہنا ہے کہ کٹرہ اور بانہال کے سیکٹر کو چھوڑ کر کشمیر ریل پروجیکٹ کے مکمل کئے گئے تین حصوں پر چلنے والی ریل سروسز نے عوام کو جو راحت پہنچائی ہے شاید وہ ریل کی صورت میں کشمیر کی عوام کیلئے اب تک کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرینگر سے جموں تک سڑک کے ذریعے کم از کم بارہ گھنٹوں کا تھکا دینے والا سفر اب ریل گاڑی کی مدد سے بانہال سے چھ گھنٹوں میں بڑے آرام سے مکمل ہوتا ہے اور بانہال ، کٹرہ ، اور وادی کشمیر کے دیگر ریلوے سٹیشنوں کے قیام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار کے وسائیل میسر ہوئے ہیں اور ان سٹیشنوں سے روزانہ سینکڑوں گاڑیاں ہزاروں ریلوے سے سفر کرنے والے مسافروں کو لاتے اور لے جاتے ہیں۔ کٹرہ اور بانہال کے درمیان ریلوے لائین کے مکمل ہونے کے بعد کشمیر ریل پروجیکٹ ریل کے زریعے بھارتی ریلوے کے نیٹ ورک سے جڑ جائے گا جو یہاں کی مشعیت اور ترقی کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ریل پروجیکٹ میں ضلع ریاسی میں چناب پر زیر تعمیر پ±ل سب سے اونچا ریلوے پ±ل اور بانہال – قاضیگنڈ کے درمیان گیارہ کلومیٹر لمبے ہندوستان کے سب سے لمبے ریلوے ٹنل کی کامیاب تعمیر کے بعد کھڑی اور سمبڑھ کے درمیان13 کلومیٹر لمبا ریلوے ٹنل بن رہا ہے جو ہندوستانی ریلوے کا سب سے لمبا ٹنل مانا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 110 کلومیٹر لمبے کٹرہ اور بانہال کے دمیان ریلوے ٹنلوں اور پ±لوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اور سخت جغرافیائی حالات اور ریلوے ٹریک کیلئے زمینداروں اور مقامی لوگوں کے تنازعوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے ریل پروجیکٹ تاخیر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔