صوبائی انتظامیہ کی طرف سے شہر سرینگر اور قصبہ جات میں فٹ پاتھوں سے ناجائز تجاوزات اور چھابڑیاںہٹانے کا فیصلہ ایک خوش آئند اقدام ہے،جس کو عوامی حلقوں کی جانب سے سراہا جارہا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں کی تعدادمیں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے سڑکوں پر راہ گیروں کی آمد رفت خطرات سے دوچار ہوگئی ہے اور آئے روز کے حادثات اس صورتحال کے گواہ ہیں، جبکہ فٹ پاتھوں پر خوردہ فروشوں کی چھابڑیوں نے چلنے پھرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھ چھوڑی ۔ایسے حالات میں راہ گیروں کو ہروقت بے بیان مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور گاڑیوں میں سفر کرنے والے لوگوں کو بھی شدید جامنگ سے، خاص کر صبح اور شام کے اوقات میں، اپنے قیمتی اوقات کے زیاں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر شہر اور قصبہ جات میں سڑکوں پر لاقانونیت اور اندھیر گردی کا ایسا عالم دیکھنے کو ملتا تھا جوکسی بھی طور ایک مہذب سماج کا حصہ نہیں ہوسکتا ہے۔ متعلقہ محکمہ جات، جن میںخاص طور پر ٹریفک پولیس اور میونسپل کارپوریشن شامل ہیں، وقت وقت پر اس میں سدھار لانے کی مہمیں چلاتے رہے ہیں لیکن اُن کے نیم دلانہ مظاہر سے کسی مثبت اور دیر پا نتیجہ کی اُمید رکھنا عبث ہے، کیونکہ چند روزہ مہموں کا دم توڑ کر صورتحال کا پھر پرانی ڈب پر لوٹ آنا ایک معمول رہا ہے۔ایسے حالات میں صوبائی انتظامیہ نے اگر اس صورتحال کو درست کرنے کا بیڑااُٹھایا ہے تو لوگوں میں ضروریہ توقعات پیدا ہوئی ہیں کہ اس صورتحال کو صرف سیکریٹریٹ کے سرینگر میں رہنے اور اُن علاقوں تک محدود نہیں رکھا جائیگا جہاں سے VIPسرگرمیاں رہتی ہے بلکہ اس کا دائرہ سارے شہر اور وادی کے مختلف قصبہ جات میں پھیلا کر اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائیگا۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی اعتبار سے تنائوزدہ ہونے کی وجہ سے خطئہ کشمیرکی سڑکیں اورفٹ پاتھ بھی وقت وقت پر سیاسی آلات کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔جیسا کہ گزشتہ برس دیکھنے کو ملا ہے، جب طویل ہڑتالی ایام میں سرکاری اداروں کی جانب سے فٹ پاتھوں پر چھابڑیاں لگانے اور سجانے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ اب جبکہ یہ سب کچھ شہری قوانین کی خلاف ورزی کے طور پر سامنے آرہا ہے تو حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان چھاپڑی فروشوں کے روز گار کو یقینی بنانے کیلئے ایسے کارگر اقدامات کرے کہ انہیں باربار اُجاڑنے کی نوبت نہ آئے۔حالانکہ ماضی میں کئی حکومتوںنے، خاص کر 1975کے بعد ، متعدد بار فٹ پاتھ صاف کرکے ان پر اپنا روزگار کمانے والوں کو ہٹاکر انہیں دُکانیں فراہم کیں لیکن اس کے باوجود یہ عارضی بازار سجنے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجوہات تلاش کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے موثر حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر زمانے کے ساتھ ساتھ روزگار کی ضروریات میںاضافہ ہوتا رہے گا۔لہذا حکومت کو روزگار کے مواقع کو وسعت دینے کیلئے دوررس اور طویل مدتی اقدامات زیر نظر رکھنا ہونگے۔ بصورت دیگر یہ حالت ہر وقت اور باربار پیش آتی رہے گی۔گزشتہ چند دنوں سے شہر کے مرکز لالچوک او رسیول لائنز کے علاقہ میں کُھلی کُھلی سڑکوں اور فٹ پاتھو ں کو دیکھ کر طبعیت کِھل اُٹھتی ہے، جو یقینی طور پر راہ گیروں کا نفسیاتی دبائو کم کرنے کا بھی سبب بن رہا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھوں پر روزگار کمانے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری کاشکار ہورہی ہے،جس سے اُن کے نفسیاتی دبائو میں اضافہ ہونے کا اندیشہ لاحق ہے ،جو سماجی اعتبارسے کسی بھی طور خوش آئندنہیں۔ایسے میں حکومت کی یہ کلیدی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طبقہ کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی خاطر سنجیدہ اقدامات کرے، تاکہ یہ نوجوان کسی کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہوجائیں، خاص کر فٹ پاتھوں پر ہونے والے کاروبار سے پیداشدہ اُس مافیا ، جس میں کسی نہ کسی سطح پر کچھ سرکاری اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں، کی دست برد سے اُنہیں محفوظ ومامون رکھا جاسکے۔فی الوقت صوبائی انتظامیہ کے اس فیصلے کاکُھلے دل سے خیر مقدم کیا جانا چاہے، اس اُمید کے ساتھ کہ ہٹائے گئے چھابڑی فروشوں کیلئے مناسب اور معقول متبادل انتظامات کئے جا ئیں گے اور آئیندہ اس صورتحال کے اعادہ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔