انجلی نے باپ کے منہ میں اپنا دایاں پستان ڈال دیا اور باپ کو تکتی رہی جب تک وہ دودھ پینے سے فارغ ہوا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند سارے علاقے پھیل گئی۔ سول سوسائٹی نے انجلی کو صدر دفتر پر طلب کیا۔انجلی سوسائٹی کے دفتر میں حاضر ہوئی۔ دفتر کے گرد و نواح میں لوگوں کی بھاری بھیڑ جمع ہوئی۔ کچھ لوگ انجلی کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔ ’’انجلی کو سزا دو‘‘۔
’’تم ناستیک ہو۔ تم نے باپ کے منہ میں اپنا پستان ڈالا ہے۔ تم نے باپ کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ تم پاپی ہو!‘‘۔ سول سوسائٹی کے صدر نے انجلی سے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔ ہرگزر نہیں۔۔۔ جناب نہ میں ناستیک ہوں اور نہ ہی میں پاپی ہوں‘‘۔ انجلی نے جواب دیا۔
’’پھر۔۔۔ کیوں تو نے ایسی غیر انسانی حرکت انجام دی؟‘‘ صدر نے بڑے انہماک سے پوچھا۔
’’جناب کون ایسی بے غیرت اور سنگ دل اولاد ہوگی جو اپنے باپ کو بھوکا پیاسا مرتے ہوئے دیکھنا چاہے گی؟‘‘ انجلی نے روتے ہوئے صدر سے کہا۔
’’مطلب۔۔ تم کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’جناب سول سوسائٹی نے ہمارے ساتھ سوشل بائیکاٹ کرنے کا حکم دیاہے، یہاں تک ہمیں پانی اور بجلی سے محروم رکھا گیا۔ میرے مریض باپ پر کسی نے ترس نہیں کھایا۔ سول سوسائٹی کے حکم سے ہمارا مین گیٹ سیل کیا گیا!‘‘ انجلی اشکبار آنکھوں سے بولی۔
’’لیکن ۔۔ تم نے ایک نیچ ذات کے لڑکے کے ساتھ شادی کیوں کی؟ تم گنہگار ہو‘‘ سوسائٹی کے ایک ممبر نے انجلی سے پوچھا۔
’’چمن جی ایک شریف النفس، ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ اقدار کا مالک ہے۔ ہم اکھٹے یونیورسٹی سے فارغ ہوکر نکلے۔ ہم دونوں بالغ ہیں۔ ہمیں اپنا فیصلہ خود لینے کا حق ہے۔ We have crossed our pubetiry age۔‘‘
’’کیا تم نہیں جانتی ہو چمن نچلی ذات سے تعلق رکھتا ہے جب کہ تمارا باپ گوپی ناتھ اعلیٰ ذات کا ہے؟‘‘صدر نے غصے میں انجلی سے پوچھا۔
’’صدر جی! جانتی ہوں۔ لیکن یہ بھی جانتی ہوں کہ بچہ بحیثیت انسان جنم لیتا ہے۔ پھر دُنیا کے لوگ اُس معصوم کے ماتھے پر ذات پات کی لیبل چسپاں کرتے ہیں۔ بھگوان کے پاس وہی بڑا ہے، جس کے کرم بڑے ہوں۔ جناب! آپ کی سول سوسائٹی نے ہمیں اتنا ستایا کہ میرا باپ ڈپریشن کے مارے اپاہج ہوا۔۔۔۔ میری ماں کی بے وقت موت نے اس کو پہلے ہی توڑ کر رکھ دیا تھا۔ صدر صاحب! ہم نے دھرم کے اصولوں کی پاسداری کی ہے۔ ہم نے انسانیت کا پالن کیاہے۔‘‘
’’تقریر بازی بند کرو‘‘ ایک اور ممبر نے انجلی سے کہا۔
’’انجلی کو صفائی پیش کرنے کا بھر پور موقع دیا جائے۔‘‘ صدر نے دیگر ممبران سے کہا۔
’’ہاں! تم اپنا کلام جاری رکھو‘‘۔ صدر نے انجلی سے کہا۔
’’جناب ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایسا صلہ ملے گا۔ہم دھرم یوگیوں سے انصاف اور تحفظ کی توقع رکھتے تھے۔ جناب ہم۔۔۔ ہم ناستیک نہیں ہم اَدھرمی ہیں۔ ہم انسانی اقدار کے رکھوالے ہیں ہمارے سنسکار ہمیں یہی تعلیم دیتے ہیں، پر ایسا نہیں ہوا۔ صدر جی! جب میرا مریض باپ غذا نہ ملنے کی وجہ سے لاگر ہوا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے اُس کے منہ میں اپناپستان رکھا اور اس کو اپنا دودھ پلایا۔ اس طرح ایک بیٹی نے ایک بے بس باپ کو بکھمری سے بچالیا!‘‘
’’تمہارے بچے کی عمر کیا ہوگی؟‘‘ ایک اور ممبر نے انجلی سے سوال کیا۔
’’ایک سال‘‘ انجلی نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’انجلی! تم کب سے اپنے باپ کو دودھ پلا رہی ہو؟‘‘ صدر نے انجلی سے پوچھا۔
’’جناب بالکل اُسی دن سے جب سول سوسائٹی کے حکم سے ہمارے ساتھ سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ صدر جی! ہمارے معاشرے میں انسانی اقدار (Human Values)کا جنازہ نکلا جارہا ہے! دھرم کے نام پر خلقِ خدا پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ عصمتیں تار تار ہورہی ہیں! قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔۔۔ نشیلی ادویات کا بازار گرم ہے! غریبوں کے خون سے اُمراء کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں! رشوت ستانی عروج پر ہے۔۔ نقلی ادویات کا کاروبار جاری ہے! ہمارا نظام ظلم اور جہالت سے آلودہ ہوچکاہے! یہاں کون کس کی سنتا ہے؟‘‘ انجلی نے روتے ہوئے کہا۔
انجلی کا بیان سُنکر سول سوسائٹی کا صدر سکتے میں آگیا۔ دفتر کے چاروں اطراف خاموش چھا گئی۔ کچھ لمحات کے بعد صدر بے ساختہ انجلی سے مخاطب ہوا۔
’’بیٹی۔۔۔ تم انجلی نہیں۔۔۔ دُرگا ہو!‘‘
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،موبائل نمبر؛9906534724