کوچنگ مراکز بند نہیں ہونگے:ایسوسی ایشن
بلال فرقانی
سرینگر//حکومت کی طرف سے نجی کوچنگ مراکز پر 90دنوں تک پابندی عائد کرنے کے ایک روز بعد کوچنگ مراکز ایسو سی ایشن نے منگل سے کوچنگ سینٹروں میں تعلیمی سرگرمیاں تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا،جب تک رسمی طور پر انہیں حکم نامہ نہیں ملتا۔ ایسو سی ایشن کے سربراہ انجینئر غلام نبی وار نے کہا کہ نا مساعد صورتحال کی وجہ سے اسکول بند ہونے کی ناکامی کو سرکار چھپانا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ طلاب کی طرف سے اسکولوں کا رخ نہ کرنے کا نزلہ ان پر اتارا جا رہا ہے۔ وار نے کہا’’ طلاب اسکول نہیں کوچنگ مراکز جاتے ہیں،اور سرکار اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے کوچنگ سینٹروں کو بلی کا بکرا بنا رہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک صرف پریس کے ذریعے انہیں یہ خبر ملی کہ آئندہ 90 دنوں کیلئے کوچنگ مراکز کو بند کیا جائے گا،مگر رسمی طور پر ابھی تک کوئی بھی تحریری حکم نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔انجینئر وار نے کہا کہ منگل سے تمام کوچنگ مراکز کام کرینگے،اور پیر کو حکومت کے حکم نامہ کے خلاف بطور احتجاج انہوں نے اپنے کوچنگ مراکز کو مقفل کیا تھا۔ پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلے کیلئے کوچنگ مراکز کو پابندی سے مستثنیٰ رکھنے اور باقی کوچنگ سینٹروں پر تدریسی سرگرمیوں میںپابندی عائد کرنے کو ایک نامکمل مشق قرار دیتے ہوئے وار نے کہا کہ کوچنگ مراکز میں جو سرگرمیاں ہوتی ہیں وہ مربوط کورسز کیلئے ہوتی ہیں،اور مختلف مسابقتی و مقابلہ جاتی امتحانات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پورے کئے جاتے ہیں۔ انجینئر وار نے سرکار کے فیصلے کو غیر موزوں اور غلط وقت میں لیا ہوا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نجی کوچنگ مراکز مالکان کو فیصلہ لیتے وقت نظر انداز کیا گیا،اور ان سے مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔انہوں نے تاہم کہا کہ مشاورت اور مشترکہ طریقہ کار سے ہی راہیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔نجی تربیتی مراکز کے مالکان نے بتایا کہ اس وقت وادی میں صورتحال ٹھیک نہیں ہے،تاہم ا ن حالات میں بھی کوچنگ سینٹروں نے تعلیم کی شمع کو فروزاں رکھا ہے۔وار نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ طلاب سڑکوں پر آئے۔ انجینئر وار نے کہا’’ کوچنگ مراکز کو بند رکھنے کے فیصلے کو گزشتہ15دنوں کی صورتحال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے،اور اس فیصلے کو کشمیر کی موجودہ صورتحال میں تعلیمی ڈھانچے کو درہم برہم کرنے کی پالیسی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘۔
ٹیوشن سینٹر تجارتی مراکز
لیکن تعلیمی اداروں کیلئے تازیانہ عبرت: گیلانی
نیوز ڈیسک
سرینگر // حریت(گ) چیئر مین سید علی گیلانی نے جموں کشمیر کی مجموعی صورتحال کو گھمبیر قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ ریاستی عوام کی ہر سہولیت زندگی کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ گیلانی نے ریاست بالخصوص وادی میں پرائیویٹ تعلیمی کوچنگ مراکز کو بند کرنے کے حکومتی اعلان کو تاناشاہی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی موجودہ مخلوط حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر یہاں کی نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے محروم کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں لگی ہوئی ہے۔ حریت رہنما نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست کی موجودہ حکومت بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح یہاں کی نوجوان نسل کو ظالمانہ اور جابرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے پشت بہ دیوار کئے جانے میں کوئی بھی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے اور اُلٹا سنگ بازی کا الزام نوجوانوں بالخصوص طلباء کے سر تھونپنے میں شرم بھی محسوس نہیں کرتی ہے۔ حریت رہنما نے حکمرانوں کے ذریعے معیشت، معاشرت، تجارت، ثقافت یہاں تک کہ اب تعلیمی شعبے کو بھی مکمل طور پر بانجھ پن کا شکار بناکر ایک دھماکہ خیز صورتحال کو جنم دینے کی سازش کی جارہی ہے۔حریت رہنما نے پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کی طرف سے طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی انتھک کوششوں کو چند ایک خامیوں کو چھوڑ کر قابل ستائش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ اسکولوں اور کوچنگ مراکز کے پھیلاؤ کو تعلیم کے تجارتی مراکز بننے سے پرہیز کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے زیرِ اہتمام تعلیمی اداروں کے لیے ایک تازیانہ عبرت ہے جسے دیگر حکومتی اداروں کی طرح رشوت خوری، افسر شاہی اور تساہل پسندی کے اڈے میں تبدیل کرکے روبہ زوال کیا گیا ہے۔
طلباء و طالبات اسکولوں کا رخ کریں :ہاشم قریشی
حکومت کی تعلیمی پالیسی ناقص،حریت اور والدین کا رول اہم
سرینگر// ڈیمو کریٹک لبریشن پارٹی کے چیرمین ہاشم قریشی نے وادی میں حکومت کی تعلیمی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ تعلیمی پالیسی کو طلباء کی بہتری اور مستقبل میں روز گار ملنے کے حوالے سے مرتب کرناچاہئے اور جس میں خاص کر طلبا ء و طالبات کو اپنے حقوق کے علاوہ سیاسی مسائل کو اُجاگر کرنے کا حق دیاجانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ و طالبات کو مظاہروں سے روکنے کے بجائے تعلیم کے نظام کو بدلنا ہوگا تاکہ طلبا اپنی سوچ اور جذبات کا اظہار کر سکیںبلکہ اسکولوں اور کالجوں میں بحث و مباحثہ کرنے کی اجازت ہو ۔ انہوں نے کہا ہم قطعی طور پر طلبا ء و طالبات کے سڑکوں پر پتھر لیکر آنے کے سخت خلاف ہیں کیونکہ تشدد سے مسائل حل نہیں ہوتے اور خاص طور پر جب طلبا و طالبات پتھر لیکر سڑکوں پر آتے ہیں تو اُن کا مستقبل نہ صرف مخدوش ہونے کا خطرہ ہے بلکہ تعلیم کے حوالے سے یہ بہت بڑے نقصان سے دو چار ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت طاقت کے حوالے سے اندھی ہوئی ہوتی ہے ان مظاہروں کے حوالے سے جن لوگوں کی FIRدرج کی جاتی ہے ان کا کل مستقبل تار یک ہو جاتا ہے ۔ ہاشم قریشی نے کہا کہ جو بھی ہو رہا ہے یہ لیڈر شپ کے بغیر، تنظیموں کے بغیر اور نظم و نسق کے بغیر ایک قسم کی انار کی ہے اس لئے طلبا و طالبات کو سکولوں ، کالجوں کے اندر سمناروں میں سیاسی مسائل اور انسانی مسائل پر بحث و مباحثہ کے ذریعے شعور پیدا کرنا چاہئے۔ انہوں نے حریت کو بھی متنبہ کیا کہ طلبا و طالبات کے تشدد میں ملوث ہونے سے روکا جائے کیونکہ ہماری قوم کا مستقبل تاریک سے تاریک ہو تا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں والدین سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو پر تشدد مظاہروں سے دور رکھیں۔
سرکاری حکمنامے پر نظرثانی کی ضرورت:حکیم
سرینگر//پی ڈی ایف چیرمین حکیم محمد یٰسین نے پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کو اگلے تین مہینوں تک بند کرانے کے بارے میں سرکاری حکمنامے پر از سرِ نو نظر ثانی کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حکیم محمد یاسین نے کہا ہے کہ مذکورہ حکمنامے کی وجہ سے نہ صرف طلباء کے تعلیمی مستقبل پر بُرا اثر پڑے گا بلکہ پرائیویٹ کوچنگ مراکز میں کام کررہے سینکڑوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا روزگار بھی متاثر ہوگا۔ حکیم محمد یٰسین نے کہا کہ ایک طرف سرکاری اسکولوں میں تدریسی عملے کی کمی ہے اور وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان بھی ہے۔ ایسی صورت حال میں پرائیویٹ کوچنگ مراکز کو بند کرائے جانے کا فیصلہ ایک غیر دانشمندانہ قدم ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کو بند کرانے کے برعکس حکومت کو ایسے اساتذہ کے خلاف کاروائی کرنی چاہیئے جو سرکاری اوقات کار کے دوران مختلف پرائیویٹ کوچنگ مراکز میں کام کرنے کے مرتکب پائے جائینگے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ زونل سطح پر نگران کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ سرکاری اسکولوں میں تعینات نجی کوچنگ مراکز میں کام کرنے کی جسارت نہ کریں۔حکیم محمد یٰسین نے کہا کہ نجی کوچنگ مراکز دُنیا کے ہر کونے میں طلباء کو معیاری تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے کھولے گئے ہیں اور بہتر معیاری تعلیم کا حصول ہر ایک باشندے کا بنیادی حق ہے۔ اسلئے کشمیری طلباء سے معیاری تعلیم کے حصول کے بنیادی حق سے زبردستی محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جو ایک خلاف قانون فعل ہوگا۔