نامساعد حالات کے پیش نظرریاست کے موجودہ تعلیمی نظام میں نجی کوچنگ سنٹروں کی اہمیت وافادیت روایتی تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ۔ایک زمانہ تھا جب جموںوکشمیر میں کوچنگ کے لفظ سے لوگ آشنا ہی نہیں تھے اور ایک مخصوص طبقہ کے لوگ ہی اپنے بچوں کا ٹیوشن کرواتے تھے ۔اس زمانے میں عمومی طور ٹیوشن کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی کیونکہ تعلیم و تعلم کا نظام انتہائی عمدہ تھا ۔حد تو یہ ہے کہ اُس وقت نجی سکولوں کا بھی اتنا چلن نہیں تھا اور بیشتر بچے سرکاری سکولوں میں ہی تعلیم حاصل کرتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب اساتذہ کو قوم کے معماروں کے طور جانا جاتا تھا اور سماج میں انہیں انتہائی عزت کی نگاہوں کی دیکھا جاتا تھا کیونکہ اُس وقت اساتذہ بھی اپنے پیشے کو کمائی کے ذریعہ کے طور نہیں بلکہ مشن کے طور لیتے تھے اور وہ ایک مشن کے تحت بچوں کو پڑھاتے تھے تاہم اب وہ سلسلہ مفقود ہوگیا ہے اور مدرسین کیلئے یہ شعبہ اب صرف کمائی کا ذریعہ بن کررہ گیا ہے جس کے نتیجہ میں تدریسی عمل بری طرح متاثر ہوچکا ہے ۔ طالب علموں کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے تجارت کا ایک آسان طریقہ کھوجا گیا جس کے تحت پورے جموںوکشمیر میں ہر گلی کوچے میں کوچنگ مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا اور کوچنگ کے نام پر یہاں ایسے مراکز کی ایسی وبا پھیل گئی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ان مراکز میں طالب علموں کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر انہیں دو دو ہاتھوں لوٹا جانے لگا۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک استاد کیلئے ایک کلاس روم میں طالب علموں کی زیادہ سے زیادہ تعداد تیس مقرر کی گئی ہے لیکن ان مراکز میں بیک وقت سوسے زیادہ طلاب کو لیکچر دئے جاتے ہیں اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اساتذہ صاحبان پبلک ایڈرس سسٹم کا استعمال کرکے اپنی بات بچوں تک پہنچاتے ہیں۔اب خود ہی اندازہ کیجئے کہ ایسے مراکز میں اساتذہ پڑھائیں گے کیا اور بچے سیکھیں گے کیا؟۔نہ کوئی باز پرسش ،نہ ہوم ورک کا کوئی معقوم انتظام ،بس چند ریڈی میڈ تعلیمی نسخوں کے عوض طلاب سے ہزاروں روپے اینٹھے جارہے ہیں۔تجارت کے اس آسان طریقہ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہر سال سرما شروع ہوتے ہی مقامی اخبارات میں ایسے اداروں کے داخلہ اشتہارات کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے جہاں طلاب کو لبھانے والی چیزوں کا استعمال کرکے انہیں ایسے مراکز کی جانب راغب کیا جارہا ہے ۔ سرکار نے دیر سے سہی لیکن جب اس ناسور کا احساس کیا تو کوچنگ مراکز کیلئے قوانین وضع کئے گئے جن کے تحت ان کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی اور واضح کیا گیا کہ سکولی اوقات کے دوران کوئی بھی کوچنگ سنٹر کھلا نہیںرہنا چاہئے ۔نیز کئی اور پیمانے بھی مقرر ہوئے جن سے ایسے مراکز کے معیار کو جانچا جاسکتا تھا جبکہ فیس کے حوالے سے بھی حدود مقرر ہوئے لیکن حسب روایت یہ قوانین کاغذی گھوڑے ثابت ہوئے اور حکم نواب تادر نواب کے مصداق ان قوانین کا اطلاق نظامت تعلیم تک ہی محدودرہا اور یہ کوچنگ مراکز اپنی مرضی کے مطابق طلاب کو دودوہاتھوں لوٹتے رہے ۔اب شاید محکمہ تعلیم کی نیند ٹوٹ گئی ہے اورمحکمہ تعلیم نے وادی میں غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے کوچنگ سینٹروں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لانے کا اعلان کیا ہے۔تاہم ،ہم محکمہ تعلیم کے حکام کو بصد احترام گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کے یہ انتباہ سننے میں تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن جب تک قول کے ساتھ عمل نہ ہو ،یہ بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں اور اس طرح سے نہ صرف محکمہ تعلیم کی اعتباریت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے بلکہ اُس شخص کی اعتباریت بھی دائو پر لگ جاتی ہے جو سماج سے کوئی وعدہ کر جائے ۔حکام کی نیت پر قطعاًشک نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن فقط نیت صاف ہونے سے یہ بلا ٹلنے والی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے عزمِ صمیم اور ہمتِ مرداں کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ہم کمر بستہ ہوجائیں گے ،اُسی صورت میں اس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے ورنہ یہ وبا مزید بھیانک روپ اختیار کرسکتی ہے اورمعیاری تعلیم فراہم کرنے کے نام پر قائم یہ تجارتی ادارے طلاب کی بے بسی کا فائدہ اٹھاکر انہیں لوٹتے رہیں گے اور وہ بھی بحالت مجبوری لٹتے رہیں گے ۔