ریاست کی جیلوں کےاندر قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اُسکی ایک مثال گزشتہ دنوں میڈیا کے توسط سے سامنے آئی ہے، جس کے مطابق جموں کی کوٹ بلوال جیل کے اندر ایک قیدی کو سرتا پاء عریاں کرکے اس پر تشدد کرنے کی نہ صرف گھناونی تفصیلات سامنے آئیں بلکہ انسانیت کو شرمسار کرنے والی تصویر نے ہر سنجیدہ فکر شہری کو دہلا کے رکھ دیا، کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں ، جب ہم تہذیب و ترقی کے ساتویں آسمان کو چھونے کے دعوے کر رہے ہیں، کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟۔ لیکن مذکورہ واقعہ کے سامنے آنے سے یہ بات نہ صرف ثابت ہوئی کہ ہمارے گردو پیش میں ایسا ہی ہو ہا ہے بلکہ یہ بھی عیاں ہوا ہے کہ جیلوں کے اندر حکام اس طر ز عمل کو معمول کا وطیرہ تصور کرتے ہیں۔ یہ بات بتانے کی شاید ہی ضرورت ہو کہ کسی کے قید ہونے سے اسکی شہری اور بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے بلکہ آئین ہند کی مختلف دفعات کے تحت عام لوگوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ نظر بندوں، زیر سماعت قیدیوں اور سزا یافتہ افراد کو بھی میسر رہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا دست و برد حقوق انسانی کی پامالیوں میں شمار ہوتا ہے۔ قیدیوں کے حقوق کے حوالےسے بین الاقوامی کنویشن اور اقوام متحدہ کی ہدایات بھی یہی ہیں۔ ان قوانین کے تحت اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ جیل خانہ جات میں قیدیوں کے سدھار اور بحالی پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے نہ کہ سزا و تشدد کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ لیکن کوٹ بلوال جیل معاملہ سامنے آنے کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ یہاں اُلٹی گنگابہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے متعدد مرتبہ اسی نوعیت کی شکایات پر سماعت کے دوران حکومتوں پر نہ صرف جیلوں کے اندر انسانی حقوق کے احترام کو ممکن بنانے پر زور دیا بلکہ اس حوالے سے پامالیوں کے مرتکب اہلکاروںکے خلا ف کاروائی کرنے پر زور دیا ۔ جبکہ ہائی کورٹوں کو بھی جیلوں کے صورتحال اور قیدیوں کے حالات پر نظر رکھنے کے لئے کہا ہے۔ریاست کے اندر مزاحمتی جماعتوں کی جانب سے آئے روز جیلوں کے اندر انکے قائدین اور کارکنوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد سے گزارنے کے الزامات عائید کئے جاتے رہے ہیں ، لیکن حکومت کی جانب سے کبھی بھی ان کا سنجیدہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ آج کے دور میں نظر بندوں اور زیر سماعت قیدیوں کو سزا یافتہ مجرموں کے ساتھ رکھنا ایک عام سی بات بن گئی ہے، جودنیا کے کسی قانون میں جائز نہیں۔یہی وجہ ہے کہ حال ہی تہاڑ جیل دہلی میں دو کشمیری قیدیوں کے زدو کوب کامعاملہ بھی سامنے آگیا۔ یہ ایک خو ش آئند بات ہے کہ ریاستی حقو ق کمیشن نے کوٹ بلوال جیل میں پیش آئے واقعہ کا از خود نوٹس لیکر جیل خانہ جات کے حکام کو واقعہ کی تحقیقات کرکے ایک ماہ کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس ہدایت پر عمل ہوتا ہے کہ نہیں۔؟یہ دیکھنے والی بات ہوگی تاہم ماضی کی روایات کے مطابق ایسی توقع کم ہی کی جاسکتی ہے، کیونکہ ماضی میں کمیشن کی کئی ہدایات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو ٹ بلوال معاملے کا سنجیدہ نوٹس لیکر اس بات کا خلاصہ کرے کہ جیلوں کے اندر ایسے واقعات پیش آنے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں نیز مرتکبین کو کن حلقوں سے اسکی شہ ملتی ہے، کیونکہ انتظامی معاملات میں اس طرح کا جابرانہ مزاج راسخ ہونے سے بنیادی جمہوری ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ فی الوقت زیر بحث واقعہ کے مرتکبین کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرور ت ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت اس معاملے سے کسی قسم کی پہلو تہی نہیں کریگی۔