کورونا وباء ایک طبی بحران ہے۔ اگر کسی کو بھی اس بے مثال صورتحال سے نمٹنے کے لائق سمجھا جاتا ہے تو وہ اس طبی شعبے سے جڑے لوگ ہی ہیں۔ یہ ایک ڈاکٹرہی ہے جو جانتا ہے کہ اس صورتحال میں کیا کرنا ہے ، اور نقصان کو کم سے کم کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ جس طرح ڈاکٹروں نے اس وباء کے دوران اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا ، ہم نے انہیں اس جنگ میں صف اول کے سپاہیوں کا خطاب دیا۔ حقیقت میں ہمارے پاس یہ ایک انتہائی افسوسناک خبر ہے کہ ایک ہی دن میں 50 کے قریب ڈاکٹروں نے اپنی جان کورونا وائرس کی وجہ سے کھو بیٹھے۔صرف اس جاریہ دوسری کورونا لہر کے دوران ملک میں اب تک269ڈاکٹر کووڈ کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے جبکہ پہلی لہر میں748ڈاکٹروں کو اس وبائی بیماری کی وجہ سے اپنی متاع حیات سے ہاتھ دھو نا پڑا تھا۔مجموعی طور پر اب تک ملک میں اس وباء کی وجہ سے ہم نے ایک ہزار سے زیادہ ڈاکٹروں کو کھویا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ڈاکٹروںنے کس طرح لوگوں کی جان بچانے کیلئے اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اگر یہ معاملہ ہے تو کیوں ان کو ہر حال میں اس بحران میں ہماری رہنمائی کرنے کی ذمہ داری نہ دی جائے لیکن بدقسمتی سے جموں و کشمیر میں ہم نے دیکھا ہے کہ ڈاکٹروں کو اس جنگ میں دیوار سے لگادیا ہے اور اُن سے سپاہیوں کا کام تو لیاجاتا ہے لیکن اُن سے کوئی مشورہ نہیں کیاجاتا ہے بلکہ اصل کمانڈ انتظامیہ کے ہاتھ میںدی گئی ہے۔ کوڈ کی ایک اور لہرکے توقع میں سینئر ڈاکٹروں کے پینل کی تشکیل ایک خوش آئند اقدام ہے ، لیکن اس میں بھی بہت دیر ہو چکی ہے۔ اور اس پینل کوکتنے اختیارات دئے جاتے ہیں،اُس سے ہمیںپتہ چلے گا کہ آیاوہ اختیارات انتہائی قلیل بھی ہیں یا سرے سے ہی نہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں ڈاکٹروں کو شامل نہ کرنا جس طرح سے ہونا چاہئے تھا، وہ جموں و کشمیر میں ایک گہری انتظامی کج فہمی کو اجاگر کرتا ہے۔ہم نے ہر چیز کو الٹا کردیا ہے اور ہم ہمیشہ چیزوں کو امن و قانون کے معاملات کے زاوئے سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ موجودہ منظر نامہ میںانتظامیہ میں ہمارے پاس افسران موجود ہیں جو فیصلے کرتے ہیں اور ڈاکٹروں کو محض ان فیصلوں پر عملدرآمد کرناپڑتا ہے جو موجودہ صورتحال میں کسی بڑے جرم سے کم نہیں ہے۔اس کو اگر یوں کہاجائے کہ یہ کار نجار بدست گلکار والا معاملہ ہے تو بیجا نہ ہوگاکیونکہ جس سے ہم پالیسی سازی کروارہے ہیں،وہ اس شعبہ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں اورجو پالیسی ردعمل کا تعین کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں ،اُنہیں صرف اوپر سے ٹھونسے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے رکھاگیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی انتظامیہ کا کوئی افسر کسی ہسپتال کا دورہ کرتا ہے تو میڈیکل کالجوں کے پرنسپلوں اور اعلی صحت کے اداروں کے ڈائریکٹروںکو کس طرح ان کی آئو بھگت کرنا پڑرہی ہے ۔حد ہے کہ ایک انتظامی افسر ہسپتال کا دورہ کرتا ہے اور اس طبی ادارے کا پرنسپل کا سربراہ شعبہ اس افسر کو ایسے بریف کرتا ہے جیسے وہ مالک کُل ہو۔یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔اصل میں اس کے بالکل الٹ اور برعکس ہونا چاہئے تھا۔ پوری انتظامیہ کو ڈاکٹروں کی خدمت میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ فیصلہ کرنے کے لئے ڈاکٹروں کو چھوڑ دینا چاہئے تھا کہ کون سی سہولیات کی کب اور کہاں ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کو چاہئے تھا کہ وہ ہسپتالوں کے اندر اور باہر تمام پروٹوکولز پر ہماری رہنمائی کرتے۔ انتظامیہ کے لوگوں کو اس بات کا یقین کرنے کے لئے وہاں ہونا چاہئے تھا کہ ضروری کارروائی کی جارہی ہے۔ یہ بحران ابھی ختم ہونے سے کوسوں دور ہے۔ اگر اس کا موثر انداز میں انتظام کرنا ہے تو آئیے ڈاکٹروں کو حقیقی معنوں میں اس سے نمٹنے کی باگ ڈور دیں اور انہیں کمانڈ اینڈ کنٹرول پر مامور کیاجائے۔ آئیے ہم اس نوآبادیاتی ذہنیت کو چھوڑ دیں اور بحران سے نمٹنے کی پیشہ ورانہ اہمیت کو سمجھیں۔ انتظامیہ کو وہی کرنا چاہئے جو اس سے مطلوب ہے اور وہ ہے لوگوں کی روزی روٹی پر لاک ڈاؤن کے منفی اثرات کا خیال رکھنا۔اس کے علاوہ انتظامیہ کا یہ کام ہوناچاہئے کہ وہ اپنے ہسپتالوں کے لئے وسائل کا بندوبست کریںاور انہیں ڈاکٹروں کے اختیار میں دیں۔ ڈاکٹروں کے پینل کو بھی اپنے پیشہ ورانہ معلومات پر قائم رہنا چاہئے ، چاہے اس کا مطلب ہی 'سیاسی طور پر غلط' ہونابھی ہو۔ اس پینل کو کیسے کام کرنے کی اجازت دی جائے گی ،یہ انتظامیہ کیلئے ایک امتحان ہوگا اور پینل آخر کار کس کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا،اُس سے اس کی اہلیت پرکھی جائے گی۔ ہم اس پینل کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔