عظمیٰ نیوزڈیسک
بنگلورو// چار ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ اسمبلی انتخابات کی تصویر صاف ہوگئی ہے۔ ان چار میں سے تین ہندی بولنے والی ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں واضح اکثریٹ کے ساتھ بی جے پی کی واپسی ہورہی ہے۔ کانگریس کیلئے ایک واحد امید تلنگانہ سے آئی ہے۔ تلنگانہ میں وہ سرکار بنا رہی ہے۔ کانگریس کے سبھی بڑے لیڈران ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ تلنگانہ سے جو امید آئی ہے اس کے پیچھے بھی ایک غیر کانگریسی کا ہاتھ ہے اور وہ سنیل کنوگولو ہیں۔سنیل کنوگولو کو دو سال پہلے وزیراعلی کے چندر شیکھر راو (کے سی آر) نے انتخابی حکمت عملی بنانے کیلئے حیدرآباد کے پاس اپنے فارم ہاوس پر مدعو کیا تھا۔ سنیل کچھ وقت پہلے ہی تمل ناڈو انتخابی مہم سے فارغ ہوئے تھے اور نئی ذمہ داری لینے کیلئے تیار تھے۔ کئی دنوں تک میٹنگیں ہوتی رہیں اور آخر کار انہوں نے کے سی آر کیلئے کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ دنوں بعد سبھی کو چونکاتے ہوئے سنیل آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کی انتخابی حکمت عملی کمیٹی کے صدر کے طور پر کانگریس میں شامل ہوگئے اور اسی کے سی آر کے خلاف محاذ کھول دیا۔ آج کے سی آر کو سنیل کو اپنے پالے میں نہ لینے کے اپنے فیصلے پر افسوس ہوگا۔ شاید یہ پچھلے کچھ سالوں میں ان کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے۔کانگریس میں شامل ہونے کے بعد سنیل نے تلنگانہ اور کرناٹک دونوں اسمبلی انتخابات کو لے کر کام کرنا شروع کردیا۔ گزشتہ مئی میں انہوں نے اپنی آبائی ریاست کرناٹک میں کانگریس کو جیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح انہوں نے اپنی صلاحیت ثابت کی۔و ہ ساتھ ساتھ تلنگانہ پر بھی کام کررہے تھے، جہاں کانگریس کافی نیچے گر گئی تھی یا یوں کہیں کہ تقریبا نچلی سطح پرپہنچ گئی تھی۔ پارٹی میں جوش و خروش نہیں باقی تھا اور نہ ہی اس میں کوئی امید باقی تھی۔ داخلی گروپ بندی نے حالات کو مزید بدتر بنا دیا تھا۔ سنیل نے اس کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور راہل گاندھی سمیت پارٹی کے سینئر لیڈروں سے کہا کہ وہ کے سی آر کو ہرا سکتے ہیں، جو اس وقت عجیب لگا تھا۔دوسری پوزیشن پر قابض کانگریس کو بی جے پی اس بات سے ڈرا رہی تھی کہ وہ اس کو تیسری پوزیشن پر دھکیل دے گی۔ ایسے میں دیکھا جائے تو کانگریس کھیل میں کہیں نہیں تھی، لیکن خاموشی سے کام کرتے ہوئے اور اپنے طریقوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے سنیل نے سب سے پہلے ریاست میں پارٹی کو منظم کیا۔ کرناٹک کی طرح انہوں نے کے سی آر کو بیک فٹ پر ڈالتے ہوئے نیریٹیو سیٹ کرنا شروع کردیا۔ فکر مند کے سی آر نے اس کو ذاتی طور پر لیا اور سنیل کے پیچھے اپنی پولیس بھیج دی۔ حیدرآباد میں ان کے دفتر پر چھاپہ ماری کی گئی اور سبھی آلات بھی ضبط کرلئے گئے۔ سنیل کو پولیس نے پوچھ گچھ کیلئے بلایا بھی تھا۔ اس کے بعد بھی وہ نہیں رکے۔ بے فکر سنیل نے ایک نیا آفس بنایا اور اپنا کام جاری رکھا۔آج سنیل خوشی سے جھوم رہے ہیں اور کے سی آر مایوس ہیں، تو سنیل ایسے ہیں۔ یہ ان کا خاص انداز ہے۔ کوئی ہوا بازی نہیں، کوئی میڈیا نہیں، کوئی تصویر نہیں، کوئی بڑی بات نہیں، کوئی پیچھے گھومنے والا نہیں، تقریبا تنہا اور پرسکون، سنیل کانگریس پارٹی میں سب سے بااثر شخصیات میں سے ایک بن کر ابھرے ہیں جو الیکشن کے معاملات پر سیدھے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ شخص جس میں کوئی جوش اور دکھاوا نہیں ہے، اس کی شخصیت میں ذرہ برابر بھی انا نظر نہیں آتی ہے۔