سرینگر//بلدیاتی اداروں کی سرگرمیوں پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کمپٹیولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرینگر میونسپل کارپوریشن سمیت7میونسپل کمیٹیاں 5کروڑ34لاکھ سے زائد کرایہ کی رقومات وصول کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں جبکہ بٹہ مالو کے باغ نند سنگھ میں سبزی فروشوں کو الاٹ کئے گئے دوکانوں کے عوض ایک کروڑ44لاکھ روپے کی رقم کی وصولیابی بھی نہیں ہوسکی ہے۔کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر چوک کے نزدیک کباڑی بازار سے منتقل کئے گئے دوکانداروں سے بھی سرینگر میونسپل کارپوریشن74لاکھ روپے کے قریب رقم وصولنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ پورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ریاست کے9بلدیاتی ادارے جن میںسرینگر میونسپل کارپوریشن اور ٹنگمرگ،پلوامہ اور بڈگام کی مونسپلٹیوں کے علاوہ ادھمپور،کھور،ریاسی اور راجوری شامل ہیں ، 2015مارچ تک5 کروڑ34لاکھ22ہزار روپے کی رقم بطور کرایہ وصول کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کرایہ میں سرکاری محکموں کے پاس ایک کروڑ22لاکھ87ہزار،نیم سرکاری اداروں کے پاس ایک کروڑ97لاکھ51ہزار،تجارتی اداروں سے18لاکھ54ہزار،انفرادی سطح پر ایک کروڑ 79لاکھ52ہزار،فورسز کے پاس15لاکھ11ہزار اور سیاسی جماعتوں کے پاس67ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’ جموں کے5بلدیاتی اداروں کے چیف ایگزیکٹو افسران کا کہنا ہے کہ واجب الادا رقومات کی وصولیابی کیلئے کارروائی کی جائے گی،تاہم سرینگر میونسپل کارپوریشن کے مالیاتی افسر نے ستمبر2015 میں کہا کہ کارروائی اگر چہ شروع کی گئی ہے تاہم اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ1995میں اقبال پارک کی خوبصورتی بحال کرنے کیلئے سرینگرمیونسپل کارپوریشن نے وہاں سے313سبزی فروشوں کو بٹہ مالو کے باغ نند باغ میں ایس ایم سی کی خالی اراضی پر منتقل کیا،اور وہاں پر سال2000میں دوکانات بھی تعمیر کرائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق کارپوریشن اور سبزی فروشوں کی انجمن کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ سبزی فروش 1995سے لیکر 2010تک دوکانات کا قبضہ لینے کیلئے23ہزار روپے فراہم کرینگے جبکہ اور5روپے50پیسہ فی فٹ کے حساب سے 2010کے بعد کرایہ ادا کرینگے،اور ہر3 سال بعد کرایہ میں10فیصد شرح کے حساب سے ادا کیا جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا’’ آڈٹ کے دوران اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ سبزی فروشوں سے 1995 سے مارچ2015تک2کروڑ9لاکھ34ہزار روپے کی رقم بطور کرایہ اور اراضی کرایہ کے طور پر جمع کرنا تھی،تاہم سبزی فروشوں نے صرف64لاکھ86ہزار روپے کی رقم ہی جمع کی،جبکہ ایک کروڑ44لاکھ48ہزار روپے کی رقم واجب الادا ہے‘‘۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرایہ کی تاریخ مقرر کرنے پر تنازعہ کی وجہ سے یہ رقم واجب الادا ہے جبکہ کارپوریشن کے مالیاتی افسر کا کہنا ہے کہ سبزی فروش 2014کے معاہدے سے منحرف ہوگئے ہیں،اور کرایہ کی ادائیگی بھی روک لی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جہانگیر چوک سے رام باغ تک فلائی اوور تعمیر کرنے سے کباڈی بازار سے43 چھوٹے دوکانوں (کیوسکس) کو کارپوریشن نے2011میں ہٹایا اور انہیں2012میں نزدیکی جگہ ہی منتقل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق معاہدے میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ یہ چھوٹے دکاندار فی کس ایک لاکھ روپے کی رقم ادا کرینگے جبکہ ماہانہ2ہزار940روپے بطور کرایہ ادا کرینگے اور ہر3سال کے بعد ان میں10فیصد شرح کے حساب سے اضافہ ہوگا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ حسابات کی جانچ پڑتال کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کارپوریشن نے یہ معاہدہ لاگو نہیں کیا،اور نہ ہی دوکانداروں کو پریمیم ادا کرنے کی حد مقرر کی۔آڈٹ کے دوران یہ پایا گیا کہ ابتدائی طور پر پرمیم کے مد میں42لاکھ روپے کی رقم جمع ہونی چاہے تھی،تاہم صرف15لاکھ75ہزار روپے کی رقم وصول کی گئی،جبکہ اسی طرح سے کرایہ کی مد میں مجموعی طور پر47لاکھ80ہزار روپے کی رقم جمع ہونی چاہے تھی تاہم مارچ2015تک صرف اس میں18ہزار روپے کی رقم ہی جمع ہوئی،جبکہ73لاکھ87ہزار روپے کی رقم کارپوریشن وصول کرنے میں ناکام ہوگئی۔ رپورٹ میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ لگاتے ہوئے کہا گیاہے کہ یہ ادارے اپنے مالی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔2010سے 2015تک7بلدیاتی ادارے44لاکھ55ہزار روپے مسافر و مال بردار گاڑیوں سے لاری اڈہ ٹول ٹیکس وصول کرنے میں بھی ناکام ہوگئے ہیں۔