کولگام // ضلع کولگام میں کم پولنگ شرح کس پارٹی کے فائدے میں ہوگی،یہ اب بہت دلچسپ صورتحال ہوگی۔ماضی میں کم پولنگ شرح عمومی طور پر پی ڈی پی کے حق میں ہوتی تھی لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ نور آباد یا دیوسر حلقوں میں قدرے بہتر پولنگ مکمل طور پر کسی جماعت کے حق میں ہوگی، کیونکہ بعض پارٹیوں کے توقع کے برعکس اس قدر زیادہ پولنگ نہیں ہوئی کہ مخالفین پر مکمل طور پر سبقت لی جائے۔کل ہوئی بہت کم اور کما حقہ بہتر پولنگ کے بعد جنوبی کشمیر کی نشست پر مقابلہ بہت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔نور آباد اور دیوسر، جہاں اب ملی ٹینسی کا بہت زیادہ اثر نہیں ہے، کے باوجود بھی جم کر پولنگ نہیں ہوئی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ جبکہ کولگام اور ہوم شالی بگ میں توقع کے عین مطابق پولنگ کی شرح رہی۔نور آباد اور دیوسر میں بہتر پولنگ کس پارتی کو فائدہ پہنچائے گی اور کولگام و ہوم شالی بگ کی کم شرح کس کو لے ڈوبے گی، ابھی صورتحال واضح نہیں ہے۔2014کے لوک سبھا انتخابات میں پی ڈی پی نے کولگام کے چاروں حلقوں میں سبقت لی تھی۔محبوبہ نے ضلع میں 59123ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ اُن کے حریف نیشنل کانفرنس اُمیدوار نے 49603ووٹ حاصل کئے تھے۔گذشتہ اسمبلی انتخابات میں نور آباد، جسے نیشنل کانفرنس کا قلعہ مانا جاتا ہے، میں پی ڈی پی کے مجید پڈر نے سکینہ ایتو کو شکست دی تھی تاہم پی ڈی پی کے نائب صدر اور محبوبہ مفتی کے ماموں سرتاج مدنی کانگریس کے محمد امین بٹ سے ہار گئے تھے۔ ہوم شالی بگ میں نیشنل کانفرنس کے مجید لارمی نے میدان مارا تھا، جبکہ کولگام میں تاریگامی فاتح قرار پائے تھے۔اگر اس تناطر میں دیکھا جائے تو چار حلقوں میں سے صرف ایک پر پی ڈی پی کو سبقت حاصل رہی۔لیکن صورتحال میں اب نئی کروٹ کیا ہوسکتی ہے، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر نیشنل کانفرنس نور آباد میں بھاری سبقت لینے میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ بہتر پوزیشن میں رہ سکتی ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق پہلگام،شانگس، ڈورو اور کوکر ناگ میں اچھی خاصی پولنگ اور بجبہاڑہ و اننت ناگ حلقوں میں نہایت کم شرح کی وجہ سے ضلع اننت ناگ میں مقابلہ برابر کہا جاسکتا ہے کیونکہ ڈورو اور کوکر ناگ میں بھاری پولنگ نہیں ہوئی جو کانگریس کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔