کولگام میں پیش آئی شہری ہلاکتوںنے پھر ایک بار ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر بارود کے ایک ایسے ڈھیر پر کھڑا ہے، جو جب پھٹکا ہے تو رنج و الم اور تباہی و بربادی کی ایسی داستانیں رقم کرتا ہے جنہیں سننے والے چیخ چیخ کر رونا توچاہتے ہیں مگر رو نہیں پاتے کیونکہ پون صدی قبل جب ساری دنیا زندگی کی سانسیں لینے کےلئے نو آبادیاتی نظام کے شکنجوں سے آزاد ہو رہی تھی تو اس ریاست کے سینے پر خونین لکیریں کھینچ کر اسے خون آشامی کی حامل ایسی سیاسی تصادم آرائی کے سپرد کر دیا گیا جس کے ،تقریباً دو نسلیں ختم ہونے کے باوجود ،ختم ہونے کا کوئی عندیہ نہیں مل رہا ہے۔ بلکہ یہ اگر کہا جائے کہ برصغیر کی سیاست نے اسے اپنے لئے ذریعہ ٔکار بنایا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ نئی دہلی سے اسلام آباد اور سرینگر سے نیویارک تک سیاسی خیمےاور ادارےاپنے اپنے بیانیےپیش کریں، لیکن حتمی حقیقت یہی ہے کہ ریاست جموںوکشمیر میں عام لوگوںکو درپیش تباہ کنصورتحال کو ہر گزرنے والے پل کے ساتھ بڑھاوا مل ہے۔ ریاست کے اندر چند ہی روز قبل بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوا اور اس میں کتنے رائے دہندگان نے حصہ لیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اس کے باوجود نئی دہلی اور اسکےحلیف گروپوں کی جانب سے اسے بہت بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر جتلایا جا رہا ہے، جو انکے انداز فکر سے بھلے ہی کامیابی ہو، لیکن زمینی سطح پر حقیقت یہی ہے کہ نوے فیصد سے زائید رائے دہندگان اس عمل سے دور رہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس پر وہ سیاسی حلقے مطمئن ہیں جو بائیکاٹ کے حامی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں جو فضاء قائم ہو رہی ہے وہ عام انسان کےلئے تباہ کن اور اذیت رساں ہے۔ یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تصادم آرائی کے حامل خطوں میں عام انسانوں کے حقوق کو مقدم رکھا جانا چاہئے۔ لیکن ریاست کے اندر اسکے برعکس ہو رہا ہے۔ اسکی کیا وجوہات ہیں اسکی غالباً وضاحت کرنے کی ضرورت نہیںہے مگر حقیقت یہی ہے کہ گھروں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں اور مستقبل کا منظر نامہ ہر گزرنے والے پل کے ساتھ گہناتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں بھلے ہی کامیابیوں اور کامرانیوں کی طول طویل دلیلیں پیش کی جائیں مگر اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ جب تک بھارت اور پاکستان کی حکومتیں اس حقیقت کا ادارک نہ کریں کہ مسئلہ کشمیر کاحل صرف اور صرف پُر امن مذاکراتی سلسلہ میں مضمر ہے، تب تک کسی مثبت صورتحال کے اُبھرنے کا امکان نہیں ۔فی الوقت تصادم آرائیوں سےجُڑی قوتوں کے معیشتی مفادات کے بہ سبب دنیا بھر میں تباہی کاجو سلسلہ چل نکلا ہے اس کے فکری عکس کو جموںوکشمیر کی صورتحال سے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ اس میں جس قدر شدت پیدا ہوتی جاتی ہے، اُسی قدر اس میں اخراجات کا پہلو اُبھر کر سامنے آتا ہے۔اسکا فائدہ کن کو مل رہا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، جس کا جواب تلاش کیا جانا چاہئے۔ فی الوقت اس ساری صورتحال میں عام کشمیری ایندھن بنتا جا رہا ہے۔ کولگام میں پیش آئے تباہ کن واقعہ کا تقاضا ہے کہ حکومت معاملے کی منصفانہ جانچ کرکے حقائق کو سامنے لائے، لیکن یہ جبھی ممکن ہوسکتا ہے، جب انتظامیہ کی نیت میں سچائی اور ارادوں میں خلوص کا عنصر شامل ہو، وگرنہ رواروی کے عالم میںبیان بازیوں کے ذریعہ اظہار افسوس کرکے متاثرین سے ہمدردی اور انکے تئیں مالی معاونت اور ہمچو قسم کے اقدامات کی نیت جتلانا وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں۔فی الوقت ریاست کے اندرکوئی منتخب حکومت نہیں اور گورنر انتظامیہ سیاسی اثر و رسوخ سے ماوریٰ ہو کر حقائق کی نشاندہی کر سکتی ہے، لیکن جس انداز سے نئی دہلی میں بیٹھے لوگ اور ریاست کے اندر انکے حلیف صورتحال کی توضیح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ نہ تو حقائق پر مبنی ہے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی مثبت فضاء قائم کرنے میں معاون ہوسکتی ہے۔ ریاستی انتظامیہ کو یہ ادارک کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں کر نا چاہئے کہ ایسی صورتحال سے حالات سدھرنےکی بجائے مزید بگڑنے کا اندیشہ پید اہوسکتا ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر معاملے کے ساتھ طے شدہ قوانین اور اصولوں کے تحت نمٹاجانا چاہئے۔ یہ دیکھاجانا چاہئے کہ عوامی مقامات پر آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز کے لئے معیاری ضابطہ کارکیا ہے اور کیا کولگام میں کاروائی کے دوران اس ضابطہ کار پر عمل کیا گیا ہے۔ کیونکہ موجودہ معاملے میں اگر حقائق کی نشاندہی کرنے میںکوتاہی کا ارتکاب کیا گیا تو یقینی طور پر آنے والے ایام میں صورتحال مزید ابتر ہو جانے کا اندیشہ ہے، جو کسی بھی فریق کےلئے سود مند ثابت نہیں ہوسکتا۔