کولگام //7شہریوں کی ہلاکت پر کولگام ضلع میں ہر سوآہوفغان کا عالم نظر آرہا ہے،جہاںمہلوکین کے گھر تعزیت کرنے والوں کا تانتابندھا رہا وہیںہر شخص کا ایک ہی سوال ہے کہ معرکہ آرائی کے بعد فوج و پولیس نے انکوانٹر کی جگہ بغیر تلاشی کیسے چھوڑی؟جس کے سبب معصوم جانیں تلف ہوئیں۔کولگام ضلع میں جسے دیکھیں وہ سوگوار ہے، اسکی آنکھ نم ہے۔7دیہات میں رہنے والے لوگوں کو ایسا زخم لگا ہے ،جس نے انکی دن رات کی سدھ بدھ چھین لی ہے ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ انکوانٹر کے بعد فورسز اہلکار دوبارہ گائوں میں آگئے اور مکان کے پاس تقریباََ10منٹ موجود رہے ،جس کے بعد جونہی یہاں نوجوان جمع ہوئے تو زور دار دھماکہ ہوا ۔لہٰذاواقعہ کی تحقیقات ہونی چاہیے۔اُنہوں نے کہا کہ اگر حسب معمول تصادم کی جگہ کی پوری تلاشی لی جاتی ہے تو لارو میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟۔ لوگوں نے کہا کہ لارو کے واقع نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔
اُزیر گولی کا نشانہ بنا
آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم اُزیر مشتاق ولد مشتاق احمد ڈار ساکن غوشیہ کالونی نزدیک گھنٹہ گھر کولگام فورسز اہلکاروں کی براہ راست گولی کا شکار بن گیا اور موت کی آغوش میں چلا گیا۔سمنانیہ ہائی اسکول کولگام میں زیر تعلیم معصوم طالب علم اپنے والدین اور چھوٹی بہن کو ایسا زخم دے گیا جس کے سبب اہل خانہ خون کے آنسو رو رہے ہیں ۔والد پیشہ سے زمیندار ہے ،جبکہ گھر متوسط طبقہ میں شمار ہے ۔مہلوک کے چاچا نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ قصبہ میں انکوانٹر کے سبب صبح ہی کرفیو کا اعلان کیا گیا ،اس بیچ اذیر چپکے سے گھرسے باہر آگیا اور تصادم آرائی سے قریباََآدھا کلومیٹر دور سیب باغ میں فورسز کی براہ راست گولی کا شکار بن گیا۔ گولی سر پر لگی تھی جس کے سبب اسکی موقعہ پر ہی موت واقع ہوئی ۔جونہی میت جنازے کے لئے لے جارہی تھی تو گھنٹہ گھر کے نزدیک پولیس و سی آر پی اہلکاروں نے جنازے پر زبردست شلنگ کی جس کے سبب میت بیچ سڑک پر رکھنا پڑی ۔مہلوک کا نماز جنازہ دو مرتبہ ادا کیا گیا اور شام دیر گئے مقامی مزار شہدا میں سپرد لحد کیا گیا ۔
جواں سال عاقب
کولگام قصبہ سے6کلو میٹر دور مکھن پورہ نامی چھوٹے سے گائوں میں داخل ہوتے ہی اندھیرا ہی اندھیرا جیسا منظر نظر آتا ہے ۔یہاں سیب کے باغ میں لگے ٹینٹ میں تعزیت کرنے والوں کا تانتدھا بندھا ہے ۔18سالہ عاقب احمد شیخ ولد محمد ایوب کے 3بھائی اور 2بہنیں ہیں ۔بچپن میں ہی ماں کے انتقال اور بعد میں والد کی دوسری شادی نے اس گھر کی مالی حالت کافی کمزور کردی ،تاہم عاقب نے اپنے بھائی جاوید کے ساتھ مل کر پرانے کپڑوں کا کاروبار شروع کیا ۔کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے مہلوک کے بھائی اعجاز احمد نے بتایا کہ میرے بھائی نے گھر کی ضروریات پورا کرنے کے لئے تعلیم کو چھوڑ کر اننت ناگ میں پٹری پر پرانے کپڑے بھیجنے کا کاروبار شروع کیا ۔واقع کے روز بھی وہ صبح اننت ناگ کی جانب روانہ ہوا ،تاہم انکوانٹر کے سبب فورسز اہلکاروں نے جگہ جگہ ناکے لگائے تھے ،جس کے سبب بھائی نے گھر کی جانب وپس راہ لی ۔اس بیچ اُن پر اُس وقت قیامت ٹوٹی جب صبح11:30بجے انکی لاش گھر پہنچی ، عاقب کا پیٹ پھٹ چُکا تھا اور انتڑیاں باہر آچُکی تھیں ۔ایک آہ بھرتے ہوئے اعجاز کہتا ہے کہ اُنہیں فخر ہے کہ میرے گائوں کے پہلے شہید کا خطاب میرے بھائی کو نصیب ہوا ہے ۔
منصور واحد سہارا تھا
عارف بلوچ
کولگام//مکھن پور سے محض 2کلومیٹر دور بوگنڈ نامی گائوں بھی ماتم کدہ ہے ،ہر شخص کا ایک ہی سوال ہے کہ بزرگ والد کا علاج اب کون کرے گا؟۔30سالہ منصور احمد ڈار ولد غلام احمد ڈار دھماکہ کی زد میں آنے والا دورسرا نوجوان تھا ،جو موت کی آغوش میں چلا گیا ہے ۔منصور کی شادی تین سال قبل ہوئی تھی اور وہ2سالہ بیٹے کا باپ تھا ۔والد گذشتہ چار سال سے ریڈھ کی ہڈی میں تکلیف ہونے کے سبب بستر پر پڑا ہے ۔ وہ اتوار کو24دن کے بعداسپتال سے رخصت ہوئے تھے کہ بیٹے کی لاش گھر پہنچی۔مہلوک کے رشتہ دار فیاض احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ منصور کافی ذہین تھا ۔اُس نے دسویں و بارہویں امتحان میںاول مقام حاصل کیا تھا ،تاہم والد کی طبیعت بگڑنے کے سبب گھر کی ساری ذمہ داریاں اُن پر آگئی اور وہ دیوسر میں مقامی کیبل آپریٹر کے بطور کام کرنے لگا ۔ کام کے ساتھ ساتھ منصور نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور وہ ایم اے ایم ایڈ تھا۔اسکی خواہش تھی کہ اچھی سی نوکری ملے تاہم خواہش کی تکمیل پوری نہیں ہوئی ۔مہلوک کے چاچا کا کہنا تھا کہ منصور خاموش مزاج کا مالک تھا ،اُس سے اکثر کہا جاتا تھا کہ آپ خاموش کیوں رہتے ہو تو وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ذریعے سوال کا جواب دیتا تھا۔اُن کی موت نے اہل خانہ کی کمر توڑ دی ہے اور گھر کے واحد سہارے کی موت نے انکو اب پوری طرح بے سہارا کردیا ہے۔مہلوک اپنے پیچھے بوڑھے والدین،اہلیہ ،معصوم بچہ اور دو بہنوں کو چھوڑ گیا ہے ۔
شرت گائوں کا ذہین طالب علم ارشاد
22سالہ ارشاد احمد ڈار ولد سعد اللہ ڈار ساکن شرت کولگام اُن بدنصیب نوجوانوں میں تھا جو اتوار کے روز لارو میں انکوانٹر کی جگہ بارودی موداد پھٹنے سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ارشاد احمد دو دن قبل بی اے فائنل ایر کا کورس مکمل کر چُکا تھا ۔گائوں ایسے نوجوان سے محروم ہوگیا ہے جوKASکے امتحان کی تیاری میں مشغول تھا ۔لیکن آنکھوں میں سجایا خواب تعبیر سے پہلے ہی چکنا چور ہوگیا۔مہلوک کے بوڑھے والدین،5بہنیں اور2بھائی ہیں ۔والد پیشہ سے مزدور ہے ،تاہم بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی ہرممکن کوشش میں لگا رہتا ہے ۔مہلوک کے دوست کا کہنا ہے کہ منصور آج تک کسی بھی جلسے یا پتھرائو میں شامل نہیں ہوا تھا اور وہ موجودہ مزاحمتی تحریک کو پتھرائو کی نظر سے دیکھنے کا سخت مخالف تھا ۔گریجویشن حال ہی میں83%نمبرات کے ساتھ مکمل کی تھی ،تاہم پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ گھر کی ضروریات کا خیال رکھنے والا تھا،واقع کے روز بھی وہ نزدیکی باغ میں سیب کی بھرائی کے لئے جارہا تھا تاہم نزدیکی محلہ میں انکوانٹر کے سبب کام پر نہ جاسکا اور اور فائرنگ بند ہونے کے بعد وہ دیگر دوستوں کے ہمراہ جائے واردات پر پہنچا اور دھماکہ کی زد میں آکر ہم سے جدا ہوگیا۔مہلوک کی لاش گھر لائی جارہی تھی تو راستے میں تعینات فورسز اہلکاروں نے راستہ روکا اور آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی ،جس کے بعد میت آٹو میں ڈالی گئی اور اندورن راستوں سے گھر پہنچائی گئی ۔اُنہوں نے کہا کہ فورسز اہلکاروں کی بربریت نے ایک ہنستے کھیلتے گھر کو ویران کردیا۔
عاقب کی ماں اور بہن اکیلی رہ گئیں
18سالہ عاقب مقبول لاوے ولد محمد مقبول ساکن لارو کی موت سے بیوہ ماں اور بہن اکیلی رہ گئی ہیں اور گھر اب پوری طرح بے سہارا ہو چُکا ہے ۔یک منزلہ مکان کے صحن میں موجود ماں بہن اپنے لخت جگر کو پُکار رہے ہیں اور وہاں موجود خواتین اُنہیں ہر ممکن دلاسہ دینے کی کوشش میں لگی ہیں ۔مہلوک کے دوست شاہد اقبال نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ عاقب کو بچپن سے ہی گھر کی ذمہ داریوںکا بوجھ پڑا ،والد18سال قبل انتقال ہوا۔عاقب دن میں مزدوری اور رات میں پڑھائی کرتا تھا ۔اُس نے چھت کے نیچے ایک چھوٹا سے کمرہ بنایا تاکہ دوران شب پڑھائی کرسکے۔ بارہویں جماعت میں390نمبرات حاصل کئے تھے اور فسٹ ائر میں داخلہ لیا تھا ۔اُ سے مذہب کے ساتھ کافی دلچسپی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اُس کے کمرے میں مذہبی کتابیں کافی نظر آتی ہیں ۔اُنہوں نے کہا کہ گھر کے نزدیک انکوانٹر ہونے کے سبب وہ بے چین ہوگیا اگر چہ ماں نے روکا بھی لیکن وہ عقبی دروازے سے انکوانٹر کی جگہ پہنچا اور بارودی مواد کی زد میں آکر جاں بحق ہوگیا۔
کلیم امتحان نہ دے سکا
انکوانٹر کی جگہ سے محض چند گز دور 16سالہ محمد کلیم بٹ لد حفیظ اللہ بارہویں جماعت کے امتحان میں شامل ہونے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگیا ۔پیشہ سے مزدور والد کچے گھارے مکان کے اندر خون کے آنسو رورہا ہے اور اُس سے یقین نہیں آرہا ہے کہ اُسکا بڑھاپے کا سہارا اُس سے جدا ہوگیا ہے ۔مہلوک کے چاچا نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کلیم کافی ذہین طالب علم تھا ۔گھر سے چند گز دور جب انکوانٹر ختم ہوا تو وہ بھی دیگر بچوں کے ہمراہ مکان کے قریب پہنچا جس دوران زوردار دھماکہ ہوا ،اگر چہ اُ سے اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی تاہم جگہ جگہ ناکوں کے سبب اُس سے اسپتال پہنچانے میں وقت لگ گیا اور وہ زخموںکی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھا۔
جاوید ہر دلعزیز تھا
تصادم آرائی کی جگہ دھماکہ کی زد میں جان گنوا بیٹھنے والے چھٹے نوجوان جاوید احمد لون ولد محمد ابراہیم لون ساکن ہاوورہ مشی پورہ کی ہلاکت کی تصدیق اتوار دیر رات گئے ہوئی۔28سالہ مہلوک پیشہ سے ٹا ٹا گاڑی کا ڈرائیور تھا ۔مہلوک دھماکہ کے سبب شدید زخمی ہوا تھا اور صورہ میڈیکل انسٹچوٹ میں دم توڑ بیٹھا ۔مہلوک کو سوموار صبح ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں پُرنم آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا ۔ مہلوک اپنے پیچھے والدین ،دو بھائیوں اور دوبہنوں کو چھوڑگیا ہے ۔مقامی لوگوں نے کہا کہ ہاوورہ مشی پورہ کی تاریخ جب بھی لکھی جائیگی تو گائوں کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائیگا، کیونکہ گائوں کا ہر کوچہ قربانی کے لہو سے بھرا پڑا ہے۔