بھارت اور پاکستان کا ویسے تو شمالی اور جنوبی کوریا کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیںتاہم سوال یہ ہے کہ اگر شمالی اور جنوبی کوریا ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں تو کشمیرکابنیادی مسئلہ حل کرکے بھارت اور پاکستان بھی اچھی ہمسائیگی کے لئے شروعات کرسکتے ہیں؟کشمیری عوام اپنابنیادی حق مانگتے ہیںاوروہ اس پورے خطے میں امن چاہتے ہیںوہ چاہتے ہیںکہ انکے ساتھ انصاف ہواوران کادورظلمت کافورہواورپھربھارت اورپاکستان اچھے ہمسایے بن کر دنیا میں آگے بڑھیں۔مسئلہ کشمیرحل نہ ہونے کے باعث جنوبی ایشیائی خطہ بھی پچھلے ستر سالوں سے جنگ کا شکار ہے۔ جس کا نقصان اس خطے کے عوام اٹھارہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ امن کے خواہشمندکشمیری عوام کشمیرمسئلے کے حل کے لئے اپنی امیدوں کاتو اظہار کرتے رہیں گے مگران کی امنگوں ،خواہشات اورانکی تمنائوں کی طرف کوئی التفات نہیں ہوگا۔کیونکہ دنیاجنوبی ایشیاکی دوایٹمی قوتوںبھارت اورپاکستان کے مابین پائے جانے والی حدت کونظراندازکرکے مجرمانہ طرزعمل اختیاکئے ہوئے ہے۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے کوریا جاپان کی کالونی تھا مگر جب جاپان کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تو جزیرہ نماکوریا نے آزادی حاصل کرلی مگراس آزادی کو،کوریائی عوام آزادی کو بٹوارے کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعدجزیرہ نماکوریا دو حصوں میں تقسیم ہو گیااورشمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان 38متوازی نام کی سرحدی لکیر کھینچ دی گئی۔اس بٹوارے کے دوران ہزاروں خاندان بچھڑ گئے۔سال 2000 میں دونوں حکومتوں نے پہلی بار اس بات پر اتفاق کیا کہ تقسیم کے وقت ایک دوسرے سے بچھڑ جانے والے خاندانوں کی ملاقات کا بندوبست کیا جائے۔اس ملاپ پر یوں تو چارسو جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے اور ہر شخص کے پاس دردناک کہانی تھی۔
شمالی اورجنوبی کوریادونوں ممالک کی آب و ہوا اور جغرافیائی حالات ہی نہیں ثقافتی و تہذیبی ورثہ بھی مشترک ہے اور عادات و اطوار میں بھی کوئی خاص فرق نہیں مگر معاشی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔جنوبی کوریا ایک خوشحال اورترقی یافتہ ملک ہے جس کے جی ڈی پی کا حجم 1.19ٹریلین ڈالر ہے جبکہ شمالی کوریا انتہائی پسماندہ اور غریب ملک ہے جس کا جی ڈی پی محض33 ارب ڈالر ہے۔جنوبی کوریا کی بر آمدات 522.6ارب ڈالر سالانہ ہیں جبکہ شمالی کوریا کی بر آمدات کا تخمینہ 4.71ارب ڈالر ہے۔شمالی کوریا کے مقابلے میں جنوبی کوریا کے باشندے خوشحال ہیں اور ان کا طرز زندگی پرتگال اور اسپین جیسا ہے اس لئے ان کی اوسط عمر 79.3برس ہے جبکہ شمالی کوریا کے شہریوں کے حالات زندگی افریقی ممالک سے بھی بدتر ہیں اس لئے ان کی اوسط عمر 69برس ہے۔شمالی کوریا کو محض دو حوالوں سے جنوبی کوریا پر برتری حاصل ہے۔ایک تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق شمالی کوریا دنیا کا بدعنوان ترین ملک ہے اور دوسرے شمالی کوریا کے دفاعی اخراجات اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔جنوبی کوریا نسبتا بڑا ملک ہے۔ جنوبی کوریاکازمینی رقبہ 38000 مربع میل ہے اوراس کی آبادی تقریبا پانچ کروڑ ہے اور اس کی مسلح افواج کی تعداد بشمول ریزرو فورس6لاکھ پچپن ہزارہے اور یہ اپنے جی ڈی پی کا 2.8فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے جبکہ شمالی کوریا کازمینی رقبہ 46500 مربع میل ہے اوراس کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے جبکہ اس کی مسلح افواج کی تعداد 11لاکھ نونانوے ہزارہے اور وہ دفاع پر جی ڈی پی کا 22.3فیصد خرچ کرتا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ قوموں کی ترقی و خوشحالی کا راز کیا ہے اورملک کیوں کامیاب اور ناکام ہوتے ہیں تو جنوبی اور شمالی کوریا کی صورت میں دو رول ماڈل موجود ہیں۔شمالی کوریا آمریت کے راستے پر چلا،اب تک صرف تین حکمران آئے ،کم جونگ ال کی موت پر اس کا بیٹا کم ال سنگ تخت نشین ہوا اور اب اس کا پوتا کم جونگ ان برسراقتدار ہے۔سیکورٹی اسٹیٹ کا ماڈل اختیار کیا گیا ،تمام وسائل دفاع مضبوط کرنے پر جھونک دیئے گئے،قدامت پسندی اور ریاستی جبر کے بل پر آگے بڑھنا چاہا،ایٹمی دھماکوں کو اپنی طاقت بنایا اور آج ایک ناکام ریاست کے طور پر سامنے ہے۔اس کے برعکس جنوبی کوریا نے جمہوریت کا راستہ منتخب کیا،مون جائی ان جنوبی کوریا کے 12ویں صدر ہیں۔فری اکانومی کو فروغ دیاگیا،صنعتی ترقی کا راستہ اختیار کیا گیا ،تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی گئی،اظہار رائے کی آزادی اور افراد کے حق ملکیت کو تسلیم کیاگیا،جمہوری اداروں کی مضبوطی کو اپنی طاقت بنایا گیااور آج ایک کامیاب رول ماڈل کے طور پر سامنے ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ شمالی کوریا میں بمشکل 32لاکھ افراد کے پاس موبائل فون ہیں جبکہ جنوبی کوریا میں 5کروڑ 89لاکھ باشندے موبائل فون استعمال کرتے ہیں ۔شمالی کوریا میں 97فیصد سڑکیں کچی اور صرف تین فیصد سڑکیں پختہ ہیں اور اس کے برعکس جنوبی کوریا میں 92فیصد شاہرائیں پختہ ہیں ۔جنوبی کوریا میں ہر دوسرے شخص کے پاس گاڑی ہے جبکہ شمالی کوریا کے 100میں صرف ایک خوش نصیب کے پاس گاڑی ہوتی ہے۔خوشحالی سے عاجزی اور انکساری آتی ہے اس لئے جنوبی کوریا نے کئی بار شمالی کوریا کو ہاتھ ملانے کی پیشکش کی لیکن یہ پیشکش نہایت حقارت سے ٹھکرا ئی گئی ۔دنیا بھر کے تجزیہ نگار سوچا کرتے تھے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کا پاگل پن کب ختم ہو گا ؟متوازی 38کے دونوں طرف بندوقیں تان کر کھڑے ہمسائے کب مسکرائیں گے اور زندگی جینا شروع کریں گے۔لیکن27اپریل جمعہ کو شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان اپنی انا کے حصار سے باہر نکلے اور جنوبی کوریا جا پہنچے ۔یہ تاریخی مناظر دیکھتے ہوئے دل سے اِک ہوک سی اٹھی کہ کاش پاکستان اور بھارت بھی اپنی جھوٹی انا کے خول سے باہر نکلیںبنیادی تنازعہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘کوکشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرکے ایک نئے دور کا آغاز کریں ۔ شمالی اور جنوبی کوریا بھی خود کو ایک دوسرے کا ازلی دشمن سمجھا کرتے تھے۔دونوں ملک بارڈر پر ایڑیاں اٹھا اٹھا کر مارنے سے لیکر سب سے اونچا پرچم لہرانے کی مسابقت تک سب وہ حرکتیں کر چکے ہیں جوپاکستان اور بھارت کے حصے میں آئیں ۔بھارت اورپاکستان ہی کی طرح شمالی اورجنوبی کوریائوں بھی جنگ نہیں امن سے خوف آتا تھالیکن 34سالہ حکمران کم جونگ ان کوبالآخر اِدراک ہو گیا کہ یہ سب حماقت اور پاگل پن ہے ۔
شمالی کوریا کے پاس اس وقت بڑی تعداد میں دور مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں نزدیک مار کرنے والے میزائل بھی موجود ہیں جن سے جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔مارچ 1993 میں شمالی کوریا دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے این پی ٹی (NPT) کے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا۔ تاہم اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکی دی تو جون 1993 میں شمالی کوریا نے اپنا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ 13 اگست 1993 کو امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان ایک عبوری سمجھوتہ طے پایا جس میں نیو کلیائی مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔8 جولائی 1994 کو کم ال سنگ کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ ان کے بیٹے کم ال جونگ نے سنبھالی۔17 دسمبر 1999 کو امریکا نے کوریا پر سفر کی پابندیاں نرم کر دیں اور کوریا نے دور مار میزائل کے تجربے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔2 ستمبر 2017 کو شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کیا جس کی طاقت ایک میگا ٹن تھی۔ یہ ہتھیار اتنا چھوٹا ہے کہ باآسانی میزائیل پر سوار ہو سکتا ہے۔ عالمی اداروں نے اس تجربے کے نتیجے میں جو مصنوعی زلزلہ ریکارڈ کیا اس کی شدت 6.3 تھی۔
شمالی کوریا نے چھ جوہری تجربے کیے ہیں۔اس کے پاس ایسے بیلسٹک میزائل بھی ہیں جن کے بارے میں ماہرین حرب کا کہنا ہے کہ یہ شمالی کوریا کے بڑے حریف امریکہ تک مار کر سکتے ہیں۔اس کے ردِعمل میں اقوامِ متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین نے اس کے خلاف مزید کڑی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔امریکہ کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کے میزائلوں کا ہدف جنوبی کوریا اور جاپان ہیں۔اسی پس منظرکے تحت ماہرین حرب کاکہناہے شمالی کوریا کے خلاف کوئی بھی حملہ تباہ کن مزاحمت کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بے شمارخلقت مارے جائیں گے۔ماضی میں شمالی کوریا کو غیر مسلح کرنے کی کوشش ناکام کوتی رہی ہیں۔لیکن جنوری 2018میں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات شروع کیے اور جنوبی کوریا میں منعقدہ سرمائی اولمپکس میں حصہ لیا۔ جبکہ جمعہ 27ا پریل کو دونوں ممالک کے سربراہان نے تاریخی ملاقات کی۔اس موقع پرشمالی کوریا نے جوہری اور میزائل تجربات روکنے کا بھی اعلان کیا۔شمالی کوریاکے جنگی خناس کے پیش نظردونوں ممالک کے صدورکے درمیان یہ مذاکرات مثال قرارپائے۔
مئی 1948 میں جنوبی کوریا کو جمہوریہ قرار دیا گیا اور سینگمن ری کو صدر منتخب کر لیا گیا۔ سیول اس مملکت کا دار الحکومت قرار پایا۔5جولائی 1950میں کوشمالی کوریا کی فوجوں نے جنوبی کوریا پر چڑھائی کر ڈالی۔ اس طرح ’’جنگ کوریا ‘‘کا آغاز ہو گیا۔امریکا کی زیر قیادت اقوام متحدہ کے فوجی دستے جنوبی کوریا کی امداد کو پہنچے۔ یہ جنگ تین سال جاری رہی۔یہ کوریا کی امریکا کے ساتھ پہلی محدود اورپہلی غیرا علانیہ جنگ تھی اور امریکا کی بھی یہ پہلی جنگ تھی جسے وہ جیت نہ سکا۔جنگ کوریا دنیا کی پہلی جنگ تھی جسے دنیا کی دو سپر طاقتیں امریکا اور روس بالواسطہ جنگ (Proxy War) کے طور پر لڑتی رہیں۔ اس تین سالہ جنگ میں تین ملین یعنی 30لاکھ لوگ ہلاک ہوئے جس میں 36940 امریکی شامل تھے۔ جبکہ ویتنام کی 16 سال جنگ میں امریکا کے 58218 شہری مارے گئے تھے۔1953میں جنگ بندی عمل میں آئی اور اس کے ساتھ ہی دونوں کوریائی ریاستیں 38 عرض بلد پر مستقل تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ سرحد کو بارودی سرنگوں اور خاردار تاروں سے محفوظ بنانے کا اہتمام کیا گیا۔ بعد میں دونوں ریاستوں کو اقوام متحدہ کا رکن بنا لیا گیا۔
جنوبی کوریا میں سنگمن ری کی حکومت رفتہ رفتہ غیر مقبول ہوتی چلی گئی۔ طلبہ نے اس کے خلاف زبردست تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں 26 اپریل 1960کو سنگمن ری کو مستعفی ہونا پڑا۔16 مئی 1961 کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ جنرل پارک چنگ ہی حکمران ٹولے کا چیئرمین بن گیا۔1963میں اسے صدر منتخب کر لیا گیا۔ 1972 کے ایک ریفرنڈم میں جنرل پارک چنگ ہی کو غیر محدود مدت کے لیے ملک کا صدر بننے کا اختیار دے دیا گیا۔ 26 اکتوبر 1979 کوجنوبی کوریا کی سی آئی اے کے چیف نے جنرل پارک چنگ ہی کو قتل کر دیا۔ مئی 1980میں ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل جن دوھواں نے ملک میں مکمل مارشل لانافذ کر دیا اور جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والے عوام کو کوانگ جو میں طاقت کے ذریعہ کچل کر رکھ دیا۔جولائی 1972 میں کوریا کے دونوں حصوں میں ملک کو متحد کرنے کے لیے پرامن ذرائع پر کام کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن 1985 تک اس میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ 1985 میں دونوں ملکوں کے ما بین اقتصادی معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔
10 جون 1987 کو مزدوروں، کارکنوں، دکانداروں اور دیگر متوسط طبقے کے لوگوں نے حکومت کے خلاف مظاہروں میں طلبہ کا ساتھ دیا اور جمہوریت کی بحالی کامطالبہ کیا۔ یکم جولائی 1987کو چن نے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ دسمبر 1987میں اوہ تائی وو صدر منتخب ہو گیا۔ 1990میں تین بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک ہی جماعت میں ضم ہونے کا فیصلہ کر لیا لیکن ایک لاکھ طلبانے اس اقدام کو غیر جمہوری قرار دے کر اس کے خلاف مظاہرے کیے۔1993 میں کم یونگ سام نے 1961 کے بعد پہلی مرتبہ سول صدر کا منصب سنبھالا۔ 26 اگست 1996 کو سیول کی ایک عدالت نے جنرل چنگ کو بغاوت اور کرپشن کے الزام میں سزائے موت اور روہ تائی وو کو اڑھائی سال قید کی سزا سنائی۔ 18 دسمبر 1997 کو کم وائے جنگ نے صدارتی انتخاب جیت لیا۔ 22 دسمبر 1997کو چن اور روہ کو معافی دیکر کر رہا کر دیا گیا۔
نصف صدی دشمنی میں گذارنے کے بعدبالآخر27اپریل جمعہ کوجب شمالی اورجنوبی کوریاکے صدورکی ملاقات ہوئی تواس ملاقات کا بنیادی ایجنڈا پہلے سے طے شدہ تھا، تاہم شمالی کوریا کس حد تک تعلقات کی بحالی کی لیے پرجوش ہے جوں جوں وقت گذرتاجائے گااسکی اصل دلی کیفیات بھی الم نشرح ہوجائیں گی۔27اپریل جمعہ کوجنوبی کوریا تھم سا گیا جب دونوں ملکوں کے سربراہوں نے سرحد پر واقع غیر فوجی علاقے میں آپس میں مصافحہ کیا۔اس کے بعد لوگوں مزید حیران رہ گئے جب کم جونگ ان نے جنوبی کوریا کے صدر کو تھوڑی دیر کے لیے لکیر عبور کر کے شمالی کوریا میں قدم رکھنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد دونوں صدورہاتھوں میں ہاتھ لیے دوبارہ جنوبی کوریا کی حدود میں داخل ہو نے خاصی دیر تک ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے رکھے۔غالبا یہ لمحہ ایسا تھا جو پہلے سے طیشدہ نہیں تھا۔ 1953 کی’’ کورین جنگ ‘‘کے اختتام کے بعد پہلی دفعہ کم جونگ ان سرحد پار کر کے جنوبی کوریا کے غیر عسکری علاقے میں موجود پنمون جوم نام گائوں میں داخل ہوئے تھے۔ نصف صدی سے زائدعرصہ دشمنی میں گذرجانے کے بعددونوں ممالک کے صدورکی یہ ملاقات یہ خود ایک علامتی چیز تھی۔جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن نے اس تاریخی موقعے پر شمالی کوریا کے صدرسے نہایت گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے صدورکے درمیان سرحد پر واقع غیر فوجی علاقے میں ملاقات ہوئی۔جنوبی کوریامیںاپنی آمد پر شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان نے اس موقع کو امن کے لیے نئے دور کا آغاز قرار دیا۔ انھوں نے پیس ہاس میں کتاب پر لکھا کہ ’’ایک نئی تاریخ اب شروع ہو رہی ہے اوریہ نئی تاریخ اور امن کے دورکاآغازہے‘‘۔اس سے قبل شمالی کوریا کے صدر نے اپنے ملک کے کسی سربراہ کی جانب سے 1953 کے بعد جنوبی کوریا کے پہلے دورے کے موقعے پر دو طرفہ تعلقات کی نئی تاریخ رقم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
شمالی اور جنوبی کوریا کے صدور نے تاریخی ملاقات کے بعد جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے مل کر کام کر نے پر اتفاق کیا۔جنوبی کوریا کے صدر اپنے نو رکنی وفد کے ساتھ کم جونگ ان سے ملے۔ملاقات کے پہلے سیشن کے ا ختتام کے بعد شمالی کوریاکے صدرکم جونگ ان اپنی سیاہ لیموزین میں واپس شمالی کوریا چلے گئے اور سہ پہر کو مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے دوبارہ جنوبی کوریا میں انکی آمدہوئی ۔دونوں ممالک میں عوام کی بڑی تعداد نے اس تاریخی لمحے کو ٹیلی ویژن پر دیکھا۔دونوںصدورکے درمیان ملاقات میں ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کے لیے جنوبی کوریا میں عوامی سطح پر خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیاجن میں ملاقات کی کامیابی کی خواہش کااظہارکیاگیا۔
کوریائی خطے کو جوہری ہتھیاروں کو کیسے پاک کیا جائے گا اس حوالے سے تفصیلات واضح نہیں ہیں تاہم یہ اعلان شمالی کوریا کی جانب سے کئی ماہ سے جاری جنگی بیانات کے بعد سامنے آیا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان’’جارحانہ سرگرمیوں‘‘کا خاتمہ،پروپیگینڈہ نشریات بند کرتے ہوئے دونوں ممالک کو تقسیم کرنے والے ’’غیر فوجی علاقے‘‘کو’’امن کے علاقے‘‘میں تبدیلی، خطے میں فوجی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اسلحے میں کمی،سہ فریقی مذاکرات میں امریکہ اور چین کی شمولیت کی کوششیں،جنگ کے بعد تقسیم ہونے والے خاندانوں کے ملاپ کا انعقاد، ریل کے ذریعے دونوں ممالک کو جوڑنا اور ریل کے نیٹ ورک کی بہتری، رواں برس ایشیائی کھیلوں کے علاوہ کھیلوں کے دیگر مقابلوں میں مشترکہ شمولیت پربات چیت ہوئی۔