کورپشن کے خلاف جنگ میں اینٹی کورپشن بیورو نامی انسداد رشوت ستانی ادارہ کا قیام جب عمل میں لایاگیاتھا تویہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اب رشوت خوروں کی خیر نہیں ہے ۔سابق گورنر ستیہ پال ملک بار بار کہہ رہے تھے کہ جموں وکشمیر میں کورپشن عام ہے اور اس ضمن میں وہ بارہا مثالیںبھی دیتے تھے ۔اینٹی کورپشن بیورو اُن کے دور میں ہی بنا۔انہوںنے تمام سرکاری افسران سے جائیداد کی تفصیلات جمع کرنے کو لازمی قرار دیا تھا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آمدنی سے زیادہ جائیداد کس کے پاس ہے ۔گوکہ وہ تفصیلات تقریباً جمع ہوچکی ہیں لیکن عمل ہنوز مفقود ہے ۔ گوکہ موجودہ لیفٹنٹ گورنرکی نیت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کورپشن کے خلاف ان کے موقف کو مستحسن ہی قرار دیاجاسکتا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ محض چند ملازمین کے خلاف کارروائی کرکے حکومت کورپشن کا قلع قمع نہیں کرسکتی ہے ۔ارباب اختیار کو اس حقیقت کا ادراک و اعتراف ہونا چاہئے کہ جموں وکشمیر میں کورپشن کی لعنت انتہائی گہرائی تک سرایت کرچکی ہے اور اس کو محض چند ملازمین کو چلتا کرکے جڑ سے نہیں اکھاڑاجاسکتا ہے ۔سابق وزیراعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید جب 2002سے 2005کے دوران بھی وزیراعلیٰ تھے تو اُس وقت بھی ایسے ہی الزامات کے تحت چند درجن ملازمین ،جن میں کئی بیروکریٹ بھی شامل تھے ،کو نوکری سے چلتا کیاگیا تھا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں کیس کمزور ہونے کی وجہ سے ان میں سے بیشتر ملازمین کو عدالتوں نے بحال کردیا وہیں چند ملازمین نے بعد میں پی ڈی پی میں ہی پناہ لی اور انہیں پارٹی میں عزت و وقار بھی ملا تھا۔اُس وقت جن ملازمین کو بر طرف کیاگیا تھا ،اُن کے خلاف شواہد اس قدر کمزورتھے کہ چند سماعتوں کے بعد ہی حکومتی موقف کی ہوا نکل گئی اورمعزز عدالت کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انہیں بحال کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں رہا تھا اور یوں شفاف انتظامیہ کے غبارے سے ہوا ہی نکل گئی ۔کالعدم قرار دئے جاچکے احتساب کمیشن کے آخری ایام انتہائی درد ناک تھے۔انتہائی طمطراق سے معرض وجود میںلائے گئے اس کمیشن کو آخر کے برسوں میںعضوئے معطل بنا کر رکھاگیاتھا ۔دراصل کورپشن کے خاتمہ کیلئے قوت ارادی لازمی ہے ۔سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اپنے دور اقتدار میں کورپشن کے خلاف جنگ کے بلند وبانگ دعوے کئے تاہم آخر پر انہیں بھی اعتراف کرنا پڑا کہ کولیشن کی مجبوریوںکی وجہ سے وہ اس حوالے سے کچھ زیادہ نہیںکر پارہے ہیں۔سابق پی ڈی پی ۔بی جے پی حکومت میں کورپشن مخالف جنگ کی بڑی باتیں ہوئی تھیں لیکن بعد میں اُس دور کے جو ہوش ربا سکینڈل منظر عام پر آئے تو معلوم ہوا کہ وہ باتیں صرف عوام کے دل بہلانے کیلئے تھیں۔ آج جب لیفٹنٹ گورنر کورپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے راشی اور بدعنوان ملازمین کے خلاف کارروائی کی باتیںکر رہے ہیںتو اس پر زیادہ خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنا لازمی ہے کہ ان کے خلاف کیس کس قدر مضبوط ہونگے یا حسب روایت کیس کمزور بنا کر ان کی بحالی کی راہ ہموار کی جائے گی۔اس کے علاو گورنرانتظامیہ کو اس بات کا بخوبی علم ہوگا کہ محض چھوٹے ملازمین ہی نہیں بلکہ نیچے سے لیکر اوپرتک انتظامیہ کورپشن میں پوری طرح غرق ہے اور صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کورونا کی عالمگیر وباء میں ایسے راشی سرکاری اہلکاروں و افسران نے کورپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں عار محسوس نہیں کی۔ اگرلیفٹنٹ گورنر انتظامیہ کورپشن مخالف جنگ میں واقعی سنجیدہ ہے تو شروعات بڑے مگر مچھوں سے کی جانی چاہئے ۔اگراعلیٰ سطح پر انتظامی مشینری کو کورپشن سے پاک کیاجاتا ہے تو پھرنچلی سطح پر سرکاری مشینری کو شفاف اور جوابدہ بنانا کوئی بڑا کام نہیں ہے اور اگر اعلیٰ انتظامی سطح پر کورپشن کی پشت پناہی جاری رہی تو چھوٹے ملازمین کو زیر نہیںکیاجاسکتا ۔ضرورت اس امر ہے کہ چھوٹے ملازمین پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے لیفٹنٹ گورنر اوپر سے ہی شروعات کریں ۔ اینٹی کورپشن بیورو کو اس قدر مضبوط بنائیں کہ وہ رشوت خوری کے سمندر میں ڈبکیاں مارنے والے انتظامیہ کی اعلیٰ کرسیوں پر براجمان عہدیداروں اور سیاستدانوں کا احتساب کرسکے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو سرکاری مشینری کا پوسٹ مارٹم کرنا آسان بن جائے گا ورنہ ان دکھاوے کی دلیلوں سے کوئی متاثر ہونے والا نہیں ہے ۔