ملک میں کورونا ٹیکہ کاری کا دوسرا مرحلہ جاری ہے تاہم دوسری جانب کورونا کے معاملات اب مسلسل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور گزشتہ روز تقریباً 30ہزار نئے معاملات سامنے آئے جو رواں سال کے دوران سب سے بڑی تعداد ہے ۔مہاراشٹر فی الوقت کووڈ انیس کا ہاٹ سپاٹ بن چکا ہے جبکہ دیگر ریاستوں میںبھی کورونا معاملات بتدریج بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔حکومت میں بھی بے چینی پیدا ہوچکی ہے، چنانچہ وزیراعظم نے کورونا صورتحال پر غور کرنے کیلئے وزرائے اعلیٰ کا اجلاس بھی طلب کرلیا جس میں صورتحال کا مفصل جائزہ لیا گیا جبکہ مرکزی سرکار کے اعلیٰ عہدیداروں کی ٹیمیں مسلسل ریاستوں میں صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے بھیجی جارہی ہیں جو اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ صورتحال کوئی خوش کن نہیں ہے۔بلاشبہ کورونا ٹیکہ کاری کے دوسرے مرحلہ میں 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد اور مختلف امراض میں مبتلا 45 سال سے کم عمر کے لوگوں کو ٹیکے لگائے جارہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں طبی اہلکاروں اور فرنٹ لائن ورکروں کو ٹیکے لگائے گئے تھے۔اس مہم کا مقصد دراصل ملک کے ہر فرد کو کورونا ٹیکہ لگا کر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بھارت کورونا سے محفوظ رہے ۔ کووڈ ٹیکہ کاری کا یہ مرحلہ بھی پہلے دو مرحلوںکی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گا تاہم کورونا کی نئی لہر کو دیکھتے ہوئے ا س کا ہر گز کوئی جوازنہیں کہ ہم احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے دیں۔ملک میں گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح کورونا کی ایک اور لہر نے جنم لیا ہے ،وہ تشویشناک ہے اور یقینی طور پر نہ صرف حکومت اس لہر کو لیکر متفکر ہوچکی ہے بلکہ عوام میں بھی خدشات پائے جارہے ہیں جو جائز بھی ہیں تاہم عوامی رویہ اُس طرح کا نہیں ہے جیسا ہونا چاہئے کیونکہ بحیثیت مجموعی دیکھا جاسکتا ہے کہ عوام کورونا کو لیکر لاپرواہ ہوچُکے ہیں اور اُن احتیاطی تدابیر پر عمل نہیںکیا جارہا ہے ،جو کورونا کے بچائو میں ناگزیر ہیں۔ موجودہ صورتحال میںلاپر واہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وائرس ہمارے درمیان ابھی بھی موجود ہے اور ذرا سی لاپرواہی بھاری پڑسکتی ہے۔ وزیراعظم مودی نے بھی گزشتہ دنوں عوام سے اپیل کی کہ وہ زمہ داری کا مظاہرہ کریں۔وہ دراصل اُس عوامی لاپرواہی کی جانب اشارہ کررہے تھے جس کا مظاہرہ آج کل پورے ملک میں عوامی سطح پر کیاجارہا ہے ۔فیس ماسکوں کا استعمال تقریباً ختم ہوچکا ہے ،جسمانی دوریوں کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھاجارہا ہے اور سڑکوں و بازاروں سے لیکر کاروباری و تجارتی مراکز ،ٹرانسپورٹ اور دفاتر غرض ہر جگہ بھیڑ بھاڑ پھر دیکھنے کو مل رہی ہے جو کوئی اچھی علامت قرار نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ کورونا انسانی سماج میں کافی گہرائی تک سرایت کرچکا ہے اور یہ لاپرواہی ا سکو پھر سر ابھارنے کا موقعہ فراہم کرسکتی ہے ۔ جہاں تک جموںوکشمیر کاتعلق ہے تو یہاں بھی ملک سے حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی کورونا معاملات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جس کو دیکھتے ہوئے احتیاط لازم ہے تاہم عوامی رویہ مایوس کن ہی ہے ۔یہاں یہ لوگ شاید یہ سمجھ کر بیٹھے ہیں کہ کورونا جا چکا ہے اور اب گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن لوگ شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کورونا بالکل ہمارے بیچ ہی موجود ہے ۔ لوگ اب بے پرواہ ہوچکے ہیں جو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ لوگ بے فکری کے عالم میں اب ماسک کا بھی استعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتے، زیادہ تر لوگ اب بغیر ماسک کے ہی گھومتے پھرتے رہتے ہیں جبکہ سماجی دوری کا کہیں نام و نشان تک نہیںہے۔ بلاشبہ ہم ایک انتہائی نازک مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کل تک ہمارے پڑوس میںپاکستان میں کورونا تقریباً ختم ہوچکا تھا لیکن آج وہاں کورونا بھیانک روپ میں دوبارہ سر ابھار چکا ہے ۔جس لاپر واہی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہم آج یہاں کررہے ہیں ،کل تک وہاں بھی ایسی ہی لاپر واہی کا مظاہرہ ہوتا تھا اور اب نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔یہ صورتحال ہمارے لئے باعث عبرت ہے اور ہمیں فوری طور سنبھلنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس مرحلہ پر ہم نہیں سنبھلیں گے تو آنے والا وقت انتہائی تباہ کن ہوسکتا ہے۔