کورونا وائرس کے پھیلائو کو مدنظر رکھتے ہوئے جموںوکشمیر انتظامیہ کی جانب سے زونوں کی جو نئی زمرہ بندی کی گئی ہے، اُس پر غور کرکے ہی شاید ہمیں سبھی سوالات کے جوابات مل سکتے ہیں کیونکہ ہمارے سماج میں مسائل پر زیادہ غور وفکر کرنے کے بجائے کہی سنی باتوں پر زیادہ یقین کرنے کے رجحان دن بہ دن فروغ پارہا ہے۔ بانڈی پورہ اور گاندر بل اضلاع کو چھوڑ کر پورے کشمیر صوبہ کو ریڈ زون یعنی کورنا کے لحاظ سے سب سے خطرناک زون میں رکھاگیا ہے ۔اسی طرح صوبہ جموں میں بھی صرف چناب خطہ کے ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع کو ہرے یعنی محفوظ زون قرار دیا گیا ہے جبکہ رام بن چھوڑ کر چھوڑ باقی سارے اضلاع نارنگی یعنی احتیاط برتے جانے والے زون میں رکھاگیا ہے اور رام بن کو ریڈزون قرار دیاگیا ہے ۔اس نئی زمرہ بندی کا مطلب ہے کہ کشمیر صوبہ میں حالات جوں کے توں رہیں گے اور معمولات کی مکمل بحالی کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے جبکہ جموں صوبہ میں مزید کچھ رعایتیں دی جاسکتی ہیں۔ زون بندی کے اس عمل سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ کشمیر صوبہ میں صورتحال کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیںہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں صورتحال خطرناک ہے تو بیجا نہ ہوگا۔کچھ طبی ماہرین یہ صحیح فرما رہے ہیں کہ آثار قرائن کے مطابق کشمیر میں کورونا وائرس کمیونٹی میں داخل ہوچکا ہے اور ہمیں احتیاط سے کام لیکر اس کے ساتھ ہی جینا ہوگا۔ہم گزشتہ کئی روز سے کہتے آرہے ہیں کہ کورونا کا وائرس کمیونٹی میں داخل ہوچکا ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا۔حکومت برملا طور شاید اس کا اظہار نہیں کرسکتی ہے اور اس کی جائز وجوہات بھی ہیںجن کا ہمیں ادراک بھی ہے لیکن پھیلائو کا رجحان خود بتارہا ہے کہ وائرس ہمارے بیچ گھس چکا ہے ۔اگر حکومت کی جانب سے روزانہ فراہم کئے جانے والے اعدادوشمار کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں کو خود ہی پتہ چلے گا کہ ہم کہاں پہنچے ہیں۔گزشتہ ایک ہفتہ سے مسلسل باہر سے آنے والوں کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ معاملات ایسے لوگوںکے سامنے آرہے ہیں جو کہیں گئے بھی نہیں تھے ۔ہماری جو 300کے قریب حاملہ خواتین کورونا سے متاثر ہوچکی ہیں ،ان کی کوئی سفری تاریخ نہیںہے اور ان میں سے 95فیصد کے اہل خانہ کی بھی کوئی سفری تفصیل نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر صاحبان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کے محلوں میں بھی کوئی باہر سے نہیں آیا تھا ۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حاملہ خواتین کہاں کورونا کاشکار ہوئیں۔جواب صاف ہے کہ ہسپتالوں اور نجی کلینکوں میں ۔زچگی کے ایام قریب آنے پر انہیں بار بار ہسپتال جانا پڑرہا ہے جہاں ان کے طبی ٹیسٹ کروائے جارہے ہیں اور الٹرا سونوگرافی بھی ہوتی ہے ۔نجی کلینکوں اور نجی نرسنگ ہوموں و ہسپتالوں میں بھی یہی عمل دہرایا جارہا ہے اور اسی عمل کے دوران یہ خواتین کورونا کا شکار ہورہی ہیں۔تو کیا مان لیاجائے کہ جہاں ہم اپنا علاج کرنے جاتے ہیں ،وہ ہسپتال بھی کورونا کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔آثار وقرائن اسی جانب اشارہ کررہے ہیںلیکن گھبرانے کی ضرورت نہیںہے ۔در اصل یہ ہماری ناقص طبی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری نگاہیں کہیں پر ہیں اور نشانہ کہیں اور ہے ۔ہسپتالوں اور نجی کلینکوں سے انفیکشن میں مبتلا ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ کورونا کمیونٹی میںداخل ہوچکا ہے اور تشویش کا مسئلہ یہ ہے کہ علامات نہ رکھنے والے مریض اس کی منتقلی میں ذریعہ بن جاتے ہیں۔یہ کوئی خوش کن صورتحال نہیں ہے بلکہ یہ خطرے کی گھنٹی ہے ۔ہم ایسے مرحلہ میں داخل ہوچکے ہیں ،جہاں اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیکر اصلاح احوال سے کام نہ لیاتو ہم کسی بھی بڑی مصیبت میںمبتلا ہوسکتے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت کے کسی بھی اقدام کی کَل سیدھی نہیں ہے اور سب کچھ اس غیر منظم انداز میں کیاجارہا ہے کہ ہمیں لینے کے دینے پڑ رہے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم بھی اپنی لاپرواہی اور نااہلی سے اپنے اور حکومت کیلئے مسائل پیدا ہی کرتے چلے جارہے ہیں۔سڑکوں اور بازاروں میں لوگوں کی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ یہاں کورونا وائرس موجود ہے ۔جسمانی دوریوںکا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھاجارہا ہے ۔فیس ماسک لگانا بھی جیسے کوئی عیب ہو۔ ہرطرف لوگ لاپرواہی سے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کیا ایسا کرکے ہم اپنا یا کسی اور کا کوئی بھلا کررہے ہی؟ نہیں ،ہرگز نہیں۔بلکہ ایسا کرکے ہم اپنی ،اپنے اہل خانہ اور بحیثیت مجموعی سماج کی تباہی کا سامان کررہے ہیں۔ہمیں سنبھلنا چاہئے، اس سے پہلے ہی دیر ہو ۔دو مہینہ لاک ڈائون میں رہ کر صبر سے کام لیا لیکن اب جب تھوڑی بہت نرمی ہوئی تو سمجھ نہیں آتا کہ ہم کیوں جلد بازی میں ہیں۔ایسے لگ رہا ہے جیسے دنیا ہی ختم ہونے والی ہو۔بے شک کام کریں ،کمائیں اور معمولات زندگی جاری رکھیں لیکن اس سب کے دوران یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ نظر نہ آنے والا خاموش قاتل ہمارے درمیان ہی موجود ہے اور وہ ہم سب کا پیچھا کررہاہے ۔ اگر ایسی سوچ پیدا ہوجاتی ہے تو معمولات زندگی بحال کرنے میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر ہم اپنی ہی من مانیاںکرتے رہیں تو جان لیں کہ تباہی انتہائی قریب ہے، جو ہم سب کو پھر اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔خدا ہمیں اس سے بچائے ۔آمین