کورونا وباء کے پھیلائو کو روکنے کیلئے پورے ملک سمیت جموںوکشمیر میں بھی دوسرے مرحلہ کا لاک ڈائون جاری ہے اور امید کی جارہی ہے کہ 20اپریل کے بعد اس میں کچھ نرمیاں کی جائیں گی تاہم جس رفتار سے نئے معاملات بدستور سامنے آرہے ہیں ،وہ پریشانی کا باعث ہوا ہے اور اس طرح کی پریشان کُن صورتحال میں بھی کچھ لوگ لاک ڈائون کی خلاف ورزیاں کرنے پر تلے ہوئے اور کافی لوگ 20اپریل سے دی جانے والی راحتوں کی بھی تنقید کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ لاک ڈائون کو صرف اس وباء سے بری طرح متاثرہ علاقوں تک ہی محدود رکھا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈائون کی وجہ سے ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر چلی گئی ہے اور غریب عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور اس صورتحال کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاہم ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ عفونت خاموشی سے پھیلتی جارہی ہے اور اب توچین سمیت کئی ممالک میں اس مرض میں مبتلا مریضوں میں شفایابی کے بعد پھر سے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے معاملات سامنے آنے لگے ہیں۔یہ معاملہ کس قدرانسانی زندگیوںکیلئے سنگین مسئلہ بن چکا ہے ،اس کا اندازہ ہمیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتو نیو گیوترس کے تازہ ترین بیان سے کرلینا چاہئے جس میں وہ واضح اور برملا الفاظ میںکہہ رہے ہیں کہ صرف اور صرف کورونا ویکسین ہی دنیا میں معمولات بحال کرسکتا ہے اور رواں سال کے اختتام تک انہیں ویکسین کے آنے کی اُمید ظاہر کی ہے۔ 50سے زائد افریقی ممالک کے نمائندوں سے ویڈیو کانفرنس میں گیوترس کا کہنا تھا کہ ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین ہی وہ ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے جودنیا کو معمول کے حالات کے احساس کی جانب واپس لوٹا سکتا ہے اور لاکھوں انسانی جانوںکو بچانے کے علاوہ عالمی معیشت کو مکمل طور ڈوبنے سے بھی بچا سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل نے یہ باتیں ہوا میں نہیں کی ہونگیں کیونکہ اُن کے پاس عالمی ادارہ صحت کی صورت میں ایک معتبر ترین طبی ادارہ اور عالمی شہرت یافتہ معالجین و ماہرین کی ایک بڑی ٹیم کی خدما ت بھی میسر ہیںاور اگر وہ ایسا کہہ رہے ہیں تو اس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جانا چاہئے یعنی انہیں بھی خدشہ ہے کہ اگر ویکسین اس سال کے آخر تک نہ آیا تو معمولات بحال ہونا مشکل ہیں اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ بھی رکنے والا نہیں ہے۔بھلے ہی انہوںنے یہ باتیں خوفزدہ کرنے کیلئے نہ کہی ہوں لیکن ان باتوں میں ہمارے لئے بھی سوچنے کا سامان موجود ہے اور ہمیں غور و فکر کرنا چاہئے کہ جب اقوام متحدہ کے سربراہ کو اندر ہی اندر سے یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ کورونا کا بحران مستقبل قریب میںختم ہونے والا نہیں ہے تو ہم جیسے لوگوں کے پاس احتیاط کے سوا کیا رکھا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ لاک ڈائون کی وجہ سے غریب طبقہ کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوپارہی ہے اور حالات انتہائی پریشان کن ہیں لیکن یہ ہمارے ملک کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ کم و بیش سبھی متاثرہ غریب ممالک کا ہے ۔غور کریں 25مارچ کو اقوام متحدہ نے 2ملین ڈالر عطیات کی اپیل کی تھی اور سبھی ممالک سے کہاتھا کہ وہ اس میں مدد کریں لیکن اب مہینہ ہونے کو آرہا ہے اور بقول ان کے ابھی تک صرف 20فیصد رقوم ہی جمع ہوپائی ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دنیا کو فی الوقت ایک دوسرے کی اتنی فکر نہیںہے اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کے پاس عطیات دینے کیلئے زیادہ کچھ ہے کیونکہ وہ اپنے مصائب میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس اندوہناک صورتحال میں پہلی ترجیح انسانی جان بچانے کو ہونی چاہئے کیونکہ جب انسان بچیں گے تو جبھی معیشت کا پہیہ پھر سے پٹری پر لایا جاسکتا ہے لیکن خدا نہ کرے ،اگر ہم نے جلدبازی میں ا س لاک ڈائون کو ختم کرنے کی ضد کی توکہیں ہمیں لینے کے دینے نہ پڑیں ۔یہ وقت بے شک صبر آزما ہے اور حالات ا نتہائی کٹھن ہیں لیکن یہ دور بھی نہیں رہے اور کورونا کا قہر بھی تھم جائے گالیکن جب تک ہمیں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے اور اپنے آس پاس ضرورتمندوں کی مدد کرتے رہنا ہے تاکہ وہ بھی زندہ رہ سکیں اور ایک دفعہ جب اس وائرس کا زور کمزور پڑ جائے تو ہم اپنی زندگی کے معمولات دوبارہ سے شروع کرپائیں گے ۔