کورونا وائرس سے آج سب دنیا پریشان ہے
جو سچ پوچھو تو سچ پھر ہے یہی، یہ حکمِ یزاں ہے
بجز حکمِ خدا تو ایک پتّا بھی نہیں ہلتا
وبا بھی ہے اُسی کا حکم جو سلطانِ ذیشاں ہے
یہ انساں جب بھٹک کر حد سے باہر ہے نکل جاتا
تو نازل قہر اپنا کر ہی دیتا پھر وہ رحمٰں ہے
’’رہو تنہائی میں تم سب، کرو تسبیح اب میری‘‘
کہاں اس حال میں بھی کر رہا تسبیح انساں ہے
یہ تنہا رہ کے بھی بغض و حسب ہی دل میں رکھے گا
کہ اس کا عمر بھر کا مشغلہ یہ کارِ شیطاں ہے
’’قضا آید طبیب اَبلہ شود‘‘ ہے ایک سچائی
ہے عزرائیل جب آتا تو بے بس ہوتا لقماں ہے
کرو سب احتیاطیں بھی خدا کو مت مگر بھولو
حیات و موت کا تو فیصلہ کرتا وہ سلطان ہے
کورونا میں بھی اب کوئی ہے بچتا کوئی مرجاتا
خدا ہی موت دیتا ہے کسی کی بخشتا جاں ہے
یہ سارے انبیاء اور اولیاء نے ہے کیا واضح
خدا ہی درد دیتا ہے وہی پھر اس کا درماں ہے
یہ دیکھا حادثوں میں ہے کوئی مرتا کوئی بچتا
ہے کہتا حکمِ حق اس کو جسے حاصل کہ عرفاں ہے
بچاتا خود کو ہے انسان کتنا موت سے لیکن
پکڑتی ہی ہے آخر موت جس سے یہ گریزاں ہے
ہے دنیا کی محبت ہی وجہ سارے گناہوں کی
یہی جڑ ہے سیہ کاری کی انجام اس کا نیراں ہے
بھلا قہرِ خدا سے کون کس کو ہے بچا سکتا
یہی تو انبیاءاور اولیاءُ اللہ کا فرماں ہے
ہیں اس قہرِ خدا میں احتیاطی اب جو تدبیریں
کہاں تدبیر سے تقدیر کا ٹلتا یہ بحراں ہے
قضا آتی برابر ہے مقرر وقت پر اپنے
جو یہ سمجھے قضاء کا وقت ٹلتا ہے وہ ناداں ہے
نہ جب تک ہو خُدا کا حکم موت آتی نہیں ہرگز
بچاتا آج اِس غم سے مجھے اپنا یہ ایقاں ہے
ہر اک پیشین گوئی وہ لکھی ہے جو حدیثوں میں
جبھی اب بد سے بدتر دور میں اُمت بھی نالاں ہے
یہ سب تقدیرِ حق ہے جو کہ ہرگز ٹل نہیں سکتی
تو کیوں وسواس میں اور وہم میں اب کوئی غلطاں ہے
رہو تنہائی میں یادِ خدا کرتے رہو اس میں
حیات و موت حق کے پنجۂ قدرت میں یکساں ہے
یہ ہاتھ اور جسم کو دھونا پسندیدہ ہے یہ حق کا
جبھی حکمِ وضو حق کا ہی نازل کردہ فرماں ہے
جُھکو آگے خدا کے گڑگڑائو، مغفرت مانگو
وہی بس ہے جو کرسکتا ہمیں اِس غم میں شاداں ہے
ہے سب مخلوق ساری کائنات اُس خالقِ کُل کی
ہیں سب رحم و کرم پر اُس کے دارا ہے خاقاں ہے
خدا کیا ہے وہی جو ہورہا ہے آج دُنیا میں
یہ سب کچھ ہے اُسی کے حکم سے جو شاہِ دوراں ہے
خدا نے ہے کہا، ہے ہر مصیبت میری مرضی سے
مگر اس راز کی تم میں سے ہر اک کو نہ پہچاں ہے
حیات وموت، خیر و شر ہے کیوں اور ہے کہاں سے یہ
نہ جو اِس راز کو سمجھے وہ دل تاریک و ویراں ہے
ہوئے پیدا اَزل سے لوگ اور مرتے رہے اب تک
وجہ اس کی سمجھتا جو نہیں کتنا وہ انجاں ہے
ہدایت اور گمراہی ہے کیا، نیکی بدی ہے کیا
اسی کو بس سمجھنے کے لئے تخلیقِ انساں ہے
اگر اعمال ہی گندے بُرے ہوں، بدخصالی ہو
بچیںاِن کی سزا سے تو کہاں پھر اس کا اِمکاں ہے
خدا کو بھول کر یہ سر کشی اپنی سیہ کاری
تو پھر کس منہ سے اور کیسے ہمیں اُمیدِ غُفراں ہے
سیہ کاری میں جب کرتے بغاوت ہم خدا سے ہیں
سزا سے پھر بچا پائیں گے خود کو، ایک ہذیاں ہے
خدا کی مار ہے کیسی تو کیسا قہر ہے اُس کا
ثبوت اس کا تو قومِ نوح پر آیا وہ طوفان ہے
ثُمودوعاد و قومِ لُوط و نمرود اور فرعوں پر
ہُوا جوقہر نازل اس سے دنیا اب بھی لرزاں ہے
وبا کیا آج ہی بس ہوگئی نازل ہے دنیا پر؟
ہوئی اس سے یہ دنیا بار ہا بربادو سنساں ہے
خدا کا حکم تھا وہ بھی، اُسی کا حکم ہے یہ بھی
یہ سب کچھ دیکھ کر بھی کیوں نا سمجھی کا خلجاں ہے
خدا کی ہیبت اور جبروُت کے آگے ہیں سب بے بس
اُسی کی حاکمیت سے جہاں اُفتاں و خیزاں ہے
بڑھے حد سے سیہ کاری یہ جبر وظلم و عیاری
تو یہ بدخصلتی بنتی تباہی کا ہی ساماں ہے
یہ مغروراورغلام اقوام اب جو روتی مرتی ہیں
یہ ان پر قہرِ نمروداں ہے قہرِ چیرہ دستاں ہے
وہی فرعونیت، ظلم و ستم ہے اب بھی دنیا میں
ہیں مظلوموں کی آہیں، عدل اور حق کا تو فقداں ہے
یہ قتلِ عام، یہ آتش زنی، یہ آبرو ریزی
اسی پر تو یہ فرعونوں کی دنیا آج نازاں ہے
ہے یہ کُھلّی بغاوت اُس سے جو خالق ہے دنیا کا
قہر خلقِ خدا پر، اس تو شیطاں بھی حیراں ہے
ہے غلبہ ظلم و باطل اور چنگیزوں کا دنیا پر
یہ قتلِ عدل و حق کا، قتلِ ایماں کا ہی رُجحاں ہے
خدایا رحم کر ہم پر بچا اس قہر سے ہم کو
ہے رو کر کہہ رہا اب ہر کوئی جس میں کہ ایماں ہے
بشیرِؔ بے نوا یہ دیکھ کر اب سر بسجدہ رہ
ہے یہ قہر خدا کیونکہ نہ تُو خائف ہے، گریاں ہے
بشیرؔ اُس کو تو کوئی وائرس چُھو بھی نہیں سکتا
جو دل سے حق کے آگے سر بسجدہ اب بہرآں ہے
بشیر احمد بشیرؔابن نشاطؔ کشتواڑی
کشتواڑ، موبائل نمبر؛7006606571