سطح پر پھوٹنے والی کووڈ-19نامی وبا کے باعث صرف ترقی پذیر ہی نہیں، ترقی یافتہ ممالک کو بھی صحت عامہ کے نئے چیلنجز کا سامنا ے۔چوں کہ کوروناوائرس کا فوری علاج یا ویکسین کی فوری طور پردریافت ممکن نہیں تھی ، اِسی لیے دنیا بھر میں اس وبا سے محفوظ رہنے کے لیے لاک ڈائون کی حکمتِ عملی متعارف کروائی گئی، جس کے نتیجے میں جہاں عوام النّاس میں اشیائے خورونوش کی زائد خریداری اور ذخیرہ اندوزی جیسے رجحانات دیکھنے میں آئے،وہیں سماجی فاصلے یاسماجی علیحدگی کے تصور نے عمومی طور پرکئی ذہنی الجھنوں کو بھی جنم دیا۔نیز، کورونا وائرس کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر کئی ممالک میں،تعلیمی اداروں کو بھی قبل از وقت بند کر دیا گیا، جس کی وجہ سے تعلیمی معمولات متاثر ہوئے۔ اس صورتِ حال میں والدین اپنی ذاتی ذہنی الجھنوں سے نبردآزما ہونے کے ساتھ اپنے بچّوں کے لیے اس وقت کو تعمیری بنانے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں،جو بہرحال ایک صبر آزما اور مشکل کام ہے۔
عالمی وبا پھوٹنے کی صْورت میں مرض کا خوف یا یہ خوف کہ کہیں ہمارا کوئی پیارا اس وبا کا شکارنہ ہوجائے، ایک قدرتی نفسیاتی ردِّعمل ہے۔عمومی طور پر اس خوف کے دو رخ ہیں۔ بعض کیسز میں مرض کا خوف عارضے سے زیادہ تکلیف دہ بن جاتا ہے،توکبھی یہی خوف مرض سے محفوظ رہنے میںمددگارثابت ہوتا ہے کہ اِسی بنا پر زیادہ تر افراد احتیاطی تدابیر اور صحت مندانہ رویے اختیار کرتے ہیں۔ تاہم، اگرخوف کا احساس شدید ہوجائے یا بہت عرصے تک برقرار رہے، تو پھر نقصان دہ ثابت ہو تا ہے۔ہمارے معمولاتِ زندگی میںسماجی فاصلہ ایک غیر قدرتی سا تصوّر ہے، خصوصاً مقامی اعتبار سے دیکھا جائے، تو متعدد گھرانوں میں دوستوں ، رشتے داروں سے میل جول ہی تفریح کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔چوں کہ کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے سماجی فاصلے ضروری ہیں، تو اسی سبب دنیا بھر میں ذہنی پریشانیوں میں اضافہ ہورہاہے۔
مزید برآں، اس وائرس کے پھیلائوکے نتیجے میں جو غیر معمولی صورتِ حال پوری دنیا میں پیدا ہوئی ہے، اس کے باعث ایک غیر معمولی خوف نے بھی جنم لیا ہے کہ اس وائرس سے پیدا ہونے والی صْورتِ حال اْن امراض سییک سر مختلف ہے، جن کے متعلق عوام النّاس کو کسی حد تک معلومات حاصل ہیں۔ مثلاً ڈینگی، نزلہ زکام وغیرہ۔ چوں کہ کووڈ-19 ایک نیا وائرس ہے اور تاحال دیگر امراض کی نسبت اس کے متعلق مکمل اور جامع معلومات دستیاب نہیں، تو ایک بڑی تعدادیادہ سے زیادہ معلومات کی خواہش میں افواہوں اور غلط معلومات پر یقین کررہی ہے، جو انٹرنیٹ پر بکثرت اور باآسانی دستیاب ہیں۔ اس صْورتِ حال کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے سب سے بہتر تو یہی ہے کہ سماجی روابط کے دوران کووڈ-19 کے متعلق گفتگو سے حتی الامکان گریز کیاجائے۔نیز،بذریعہ سوشل میڈیا پر موصول ہونے والے پیغامات کو متعدد افراد تک منتقل کرنے سے بھی اجتناب برتاجائے۔
کووڈ-19 کا خوف محض بالغ افراد تک محدود نہیں، یہ بچوںمیں بھی منتقل ہو رہا ہے،جس کے نتیجے میں ان میں چڑچڑا پَن، جارحانہ انداز اور جسمانی مسائل بڑھ رہے ہیں ،جب کہ بعض بچے نیند کی کمی کا بھی شکار ہیں۔ اس صْورتِ حال میںنوجوان اوربچے دِن بھر کے لیے ایک مخصوص معمول اپنا کرخودکو ذہنی تقویت دے سکتے ہیں۔نیز، سونے اور جاگنے کے درست اوقاتِ کار پر بھی عمل کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ بغیر کسی شیڈول کے دِن گزارنے سے بوریت اور ذہنی الجھن کا احساس بڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں اور بچّوں کو سمجھایا جائے کہ سماجی روابط میں فاصلہ قائم رکھنا ایک بامقصد اور ضروری امر ہے۔اس دوران اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ قائم رکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، اس وقت کو ان مشاغل کی تکمیل کے لیے بھی تعمیری انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے، جن کے لیے عموماً وقت نہیں ملتا تھا۔ اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنا، ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا یا ورزش کرنا، روحانیت/مذہبی معمولات کے لیے وقت نکالنا اور عرصے سے نامکمل کاموں کو مکمل کرنا ایسے امور ہیں، جو ہمیں احساسِ کام یابی دے سکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو عالمی سطح پر واقع ہونے والی اس تبدیلی سیہمیں یہ جاننے میں مدد مل رہی ہے کہ زندگی میں کیا کچھ اہم ہے اور اسے کس طرح سَرانجام دیا جا سکتا ہے۔کورونا وائرس کے خوف سے محفوظ رہنے کے لیے اس سے متعلق خبریں یانشریات محدود دورانیے کے لیے پڑھی اوردیکھی جائیںاور اس حوالے سے باخبر رہنے کے لیے صرف تصدیق شدہ اور مستند اداروں کی جانے سے فراہم کی جانب والی خبروں ہی پر دھیان دیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اس مرض کا پھیلائو عارضی اور وقتی ہے، سدا ایسے ہی حالات نہیں رہیں گے۔سو،اس وقت ہر فرد کو خاص طور پراپنے بچوں کے لیے ایک مثالی نمونہ بننا چاہیے، تاکہ انہیں بہتر انداز میں معاونت فراہم کی جا سکے۔ بچّوں کو ان کی عْمر اورذہنی استعداد کے مطابق مرض سے متعلق درست اور مثبت معلومات فراہم کی جائیں۔ نسبتاً بڑی عمر کے بچوں کو قابلِ بھروسا معلوماتی مواد فراہم کر کے ان کی معاونت کی جا سکتی ہے۔ اگر بچے ذہنی طور پر اس مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والی صْورتِ حال سے پریشان ہیں، تو انہیں اس سے متعلق سوالات کی اجازت دیں۔
تاہم، بچوں سے مرض کے حوالے سے طویل گفتگو سے اجتناب برتا جائے۔ نیز،انہیں تمام احتیاطی تدابیر سے مکمل طور پرباخبر رکھیں، تاکہ ان کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اپنا فارغ وقت بچوں کے ساتھ صرف کریں اور ایسی دِل چسپ سرگرمیوں میں انہیں مصروف رکھیں، جو تعمیری نوعیت کی ہوں۔ مثلاً اِن ڈور گیمز، فنون، موسیقی، باغ بانی، کھانا پکانا یا بورڈ گیمز وغیرہ۔ نیز،بچّوں کو ذہنی سْکون حاصل کرنے کے مختلف طریقے بھی سکھائیں۔ مثلاً سانس کی ورزشیں وغیرہ۔
دنیا اس وقت ایک ایسے بحران سے گزر رہی ہے، جس میں خوف اور بے یقینی کا دَور دورہ ہے۔ تاہم، انتشار اور بے چینی کے ہر مرحلے میں، انسان امید کا دامن تھامے رکھ سکتا ہے اور یہی وہ منفرد خاصیت ہے، جو ہر مشکل کو آسان بنا دیتی ہے۔ ایک مشہور گلوکارہ، سلین ڈیون کا کہنا ہے، ’’زندگی بعض اوقات آپ پر ایسے حالات مسلّط کرتی ہے، جو آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتے ہیں۔ تاہم، ایک انتخاب ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ اس مشکل وقت سے کیسے گزرتے ہیں۔‘‘لہٰذا یہ وقت امید کا دامن تھام کر مثبت سوچ کے ساتھ گزاریں،تاکہ خوف آپ پر طاری نہ ہوسکے۔