اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تومعلوم ہو گا کہ ہم نے اِس چند سالہ زندگی میں کتنی مرتبہ چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی خواہشات کی تکمیل کیلئے کتنے بڑے بڑے اصولوں کی قربانیاں دی ہیں اور کئی بڑی بڑی قربانیاں تو یقینا ایسی بھی نظر آئیں گی جو ایسی خواہشات کے لئے تھیں جو کہ محض چند لمحوں کی تسکین کیلئے تھیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے شادیوں کے بڑے بڑے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے، شادیوں سے تو نہیں روکا گیا ہے۔اِن حالات میں آپ کے گھر کے چندافراد بارات لے کر جاتے اور دلہن لے کر آجاتے اور اِسی طرح آپ کی بیٹی کے سسرال والے بھی چند افراد پر مشتمل بارات لے کر آتے اور اپنی دلہن لے جاتے۔اِس طرح کرنے سے فرض بھی ادا ہوجاتا اور اچھی خاصی رقم کی بچت بھی ہوجاتی اور بچی ہوئی رقم سے بہت سے نہ صرف اپانا بلکہ دیگر لوگوں کا بھلا کیا جاسکتا تھا۔ بہت سے لوگوں نیاسی طرح سادگی سے شادی کی رسم ادا کر لی ہوگی اور اپنی خواہشات پر کنٹرول کرکے ایک اچھی روایت قائم کرکے دوسروں کے لئے راہ ہموار کردی۔
ایک معروف سائیکالوجسٹ کا کہنا ہے کہ خواہشات کی تکمیل اگر حدود کے اندر رہ کر کی جائے تو اِس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے مگر اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر خواہشات کے پیچھے چلے جانا ہر گز درست نہیں ہوتا۔ ایسا در اصل وہ لوگ ہی کرتے ہیں جن کی تربیت میں کوئی خاص کمی رہ گئی ہواورایسے لوگ کسی بھی کمیونٹی، طبقہ اورنکتہ نظر کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اِن کی مخصوص محرومیاں ہی اْنہیں اِس سطح تک لے آتی ہیں کہ وہ چند لمحوں کی راحت کی خواہش کی تکمیل کیلئے اپنے ہی بنائے ہوئے بڑے بڑے اصولوں کی بھی دَھجیاں اْڑا دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی لوگ محض نفسیاتی مسائل کے باعث اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آخری سطح سے بھی آگے جانے کو تیار ہو جاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ معمولی سی چیز اگر اْن کو نہ بھی ملی تو اْن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر پھر بھی وہ اْس کو حاصل کرنے کیلئے آخری سطح تک چلے جاتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہیں کہ خواہشات کی تکمیل کرنے والے کی محرومی مادی وسائل سے متعلق ہی ہوبلکہ وہ کسی بھی طرح کی ہوسکتی ہے۔ بہت غریب یا مادی محرومیوں کا شکار افراد کی تربیت اگر اِس انداز سے ہوئی ہو کہ اْن میں میانہ روی اختیار کرنے کو پروموٹ کیا گیا ہو تو فرد نارمل زندگی گزارنے کے قابل رہتا ہے۔ شادیوں اور خوشیوں کے مواقع پراسراف کرنے کے حوالے سے سائیکالوجسٹ کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلاتے ہوئے خرچ کرتا ہے تو اْس کوایساہی کرنا چاہئے لیکن بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے بعد محض اِس لئے خرچ کرنا کہ لوگ دیکھ کر اْن کی تعریف کریں گے ہرگز درست نہیں ہے۔ شادی کے موقع پر تو لوگ اِس لئے بھی خرچ کرتے ہیں کہ اْن کے خیال میں یہ خرچ زندگی میں محض ایک مرتبہ ہی ہونا ہوتا ہے، بے شک اْنہیں دوسری، تیسری یا چوتھی مرتبہ بھی خرچ کرنا پڑے،لیکن پہلی مرتبہ کرتے ہوئے تو یہی سوچ ہوتی ہے کہ ایک ہی مرتبہ خرچ کرنا ہے اور اِسکے لئے گزشتہ کئی سالوں سے وہاں رقمیں جمع بھی کی جارہی ہوتی ہیں۔
کورونا وائرس نے جہاں اور بہت سے معاملات کو چھیڑا ہے وہاں شادیاں بھی ہیں۔بہت سے لوگ جو پہلے ہی فضول رسومات سے تنگ تھے اْنہوں نے کورونا کا شکر ادا کیا ہے کہ اِس کی وجہ سے اْن کی لاج رہ گئی ہے۔ ماضی میں جب کبھی شادیوں پرزیادہ لوگوں کو کھانا کھلانے پر پابندی عائد ہوئی تھی تو بیشتر لوگ اِس پابندی کے خلاف بات بھی کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ چلو اچھا ہے ،بچت ہوگئی۔اْس وقت بھی لوگوں کے دوہرے معیار دیکھنے کو ملے۔ یعنی کسی کی تقریب میں جاتے تو شادی پر کھانا نہ ملنے پر تنقید کی جاتی اور جب اپنے ہاں تقریب ہوتی تو اْس پابندی کے تمام محاسن بیان کردئیے جاتے۔
خواہشات کی تکمیل اوراِن کی غلامی کرنے کے حوالے سے اللہ تعالی نے کئی جگہ پر رہنمائی فرمائی ہے۔ سورۃ النساء میں فرمایا ہے؛’’اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔اوراگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔سورۃ الفرقان کی آیات 43اور44میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛’’کیا آپ ؐنے اْسے دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا لیا ہے؟کیا پھرآپ ؐ اِس کے ذمہ دار بنتے ہیں۔یا پھر آپ ؐسمجھتے ہیں کہ بے شک اْن میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اْن سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘
گویا اپنی خواہشات کو عقل کے تابع رکھنے میں ہماری عافیت ہے۔خواہشات کو اپنے اوپر اِس طرح مسلط کر لینا کہ وہ ہمارے معبود بن جائیں قطعاً ٹھیک نہیں ہے۔بے شک نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام تو شْترِ بے مہار ہوتا ہے ، اْسے اْس کی خواہشات جدھر جدھر چاہیں لے جائیں، وہ اْن کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ اْسے صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز ہی نہیں رہتی۔
رسول کریم ؐ کا فرمان ہے کہ ’’تم میں کوئی ایک مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات اْس کے تابع ہوجائیں جو میں لایاہوں۔‘‘ (یعنی قرآن)
اپنی چاہت کی تکمیل میں بالکل آزاد اور بے لگام ہونا، انسانی خواہشات کی اولین اور اہم ترین خصلت ہے۔تاہم اِن خواہشات سے سیر ہونا یا نہ ہونا ایک الگ موضوع ہے اور اِس کے کئی درجات ہیں۔ بعض خواہشات ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا بھی اْن کی تکمیل کی جائے اْن کی طلب اور چاہت میں کمی نہیں آتی اور اْن سے کبھی سیر نہیں ہواجا سکتا جبکہ بعض ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ماند پڑجاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ اِن تمام خواہشات کے درمیان اعتدال اور توازن کے بجائے شدت طلبی ایک مشترکہ صفت ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے؛’’تم اپنی خواہشات سے بالکل اْسی طرح ڈرتے رہو جس طرح اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو‘‘ یہ حقیقت ہے کہ انسان کیلئے خواہشات کی پیروی سے بڑا کوئی دشمن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں اِس سے منع کیا گیا ہے۔
ہزاروں ہوں یا صرف کوئی ایک ایسی خواہشں جس پر آپ کادم نکلتا ہواْس کا احتساب خود کریں کہ کوئی دوسرا کرے گا تو زیادہ خرابی ہوگی۔کورونا کے اِن دنوں میں جبکہ ہر طرف موت نہ بھی سہی مگر ایک خوف، بے یقینی اور مایوسی کی سی فضا پھیلی ہوئی ہے، ہمیں اپنی اصلاح کی طرف مائل ہونا چاہئے۔شاید اللہ تعالی نے ہمیں اپنے قریب آنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے جس کو ہم پہچان نہیں پا رہے اور ہنسی مذاق اور طعن و تشنیع میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی پہچان کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)