گزشتہ تین روز سے جموںوکشمیر خاص کر وادی کشمیر میں کورونا کے مثبت معاملات جس عنوان سے سامنے آرہے ہیں،وہ یقینی طور پر پریشان کن ہے۔سنیچر کو ایک دن میں ریکارڈ معاملات سامنے آئے جن کی تعداد40سے بھی زیادہ تھی۔جب ان کیسوں کا ذراباریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو ایک پریشان کن صورتحال ابھر کر سامنے آتی ہے ۔حکام کے لئے بھلے ہی یہ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے مریض ہوں لیکن گہرا تجزیہ پریشان کردیتا ہے ۔ تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر وادی کا اب کوئی ضلع محفوظ نہیں ہے اور ہر ضلع میں کورونا نے دستک دی ہے ۔دوسرا اور اہم نکتہ جو تجزیہ کے بعد ابھر کرسامنے آتا ہے ،وہ یہ ہے کہ ہمیں قطعی طور لاپر واہی برتنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ گھوم پھر کر واپس آرہا ہے ۔سرینگر انتظامیہ کئی روز تک اس اطمینان میں تھی کہ یہاں اب نئے معاملات سامنے نہیں آرہے ہیں اور عوامی سطح پر بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیاجارہاتھا جبکہ عوامی نقل وحمل بھی کافی حد تک بڑھ چکی تھی کیونکہ شاید انتظامیہ کے لوگ سمجھنے لگے تھے کہ کورونا سرینگر سے رخصت ہوچکا ہے لیکن گزشتہ تین روز سے جس طرح مسلسل سرینگرضلع سے نئے معاملات سامنے آرہے ہیں ،وہ یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ کورونا کہیں گیا نہیںہے بلکہ یہیں موجود ہے ۔اسی طرح بانڈی پورہ ضلع کے نئے نئے دیہات اس کی لپیٹ میں مسلسل آرہے ہیںجبکہ ٹنگمرگ میں بھی اس نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کردیا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ شوپیاں اور اننت ناگ کے دو مخصوص علاقے ہاٹ سپاٹ بن چکے تھے لیکن اب اننت ناگ کا وہ حصہ بھی اس کی لپیٹ میں آتا دکھائی دے رہا ہے جہاں ابھی تک کوئی کیس نہیں تھا اور یہ علاقہ شہرہ آفاق سیاحتی مقام پہلگام سے منسلک ہے ۔پلوامہ کو کووڈ فری قرار دیا جارہا ہے ۔اسی طرح لداخ کو بھی کورونا سے آزاد قرار دیاگیا تھا لیکن وہاںدو نئے کیس سامنے آئے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ ابھی علاقوں کو کورونا سے متاثرہ یا کورونا سے آزاد قرار دینا قبل از وقت لگ رہا ہے ۔ابھی یہ وائرس پھیل رہا ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ کب کہاں پہ یہ سرنکال لے ۔لہٰذا کسی بھی طور احتیاطی اقدامات نرم کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ ہمیں ہمہ وقت محتاط رہناچاہئے۔دنیا کے کئی ممالک سے بھی اس بات کے پختہ ثبوت مل چکے ہیں کہ وہاں کورونا دوبارہ لوٹ کر آرہا ہے اور ان ممالک کے مطابق اب اس کی دوسری لہر مزید خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ وائرس اب اس ماحول سے ہم آہنگ ہوچکا ہے اور اس کا مدافعتی نظام مزید سخت ہوا ہوگا جو عوام کیلئے مزید پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ عوام کے بے پناہ مسائل ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ روزگا رکا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مسلسل نرمیوں کا اعلان کیاجارہا ہے تاکہ غریب اور متوسط طبقہ کی روزی روٹی کا کوئی بندوبست ہوسکے لیکن ا سکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم معاش کی فکر میں کوروناکا شکار بن جائیں ۔کورونا ہمارا ایک ایسا دشمن ہے جو نظر نہیں آرہا ہے اور صرف احتیاط ہی ہمیں اس کے قہر سے بچاسکتی ہے ۔اگر حکومت کی جانب سے اعلان شدہ نرمیوں سے ہم استفادہ حاصل کرنا چاہتے ہیںتو بے شک کریں اور یہ ہمارا حق بھی بنتا ہے لیکن جس طرح ہم نے اب تک اس وائرس کو سرسری لیا ہے ،وہ موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ڈپٹی کمشنر سرینگرکافی حدتک صحیح ہے کہ سرینگر ضلع میں90فیصد موجودہ عبور و مرور غیر ضروری ہے۔یہی حال دیگر اضلاع کا بھی ہے ۔یقینی طور پر سڑکوںپر غیر ضروری آمد ورفت ہے اور اگر صرف حسب ضرورت نقل و حمل ہی ہو تو ہماری سڑکیں سنسان ہونگیں لیکن آج کل تو کئی مقامات پر صبح اور شام کے اوقات میں جام لگ جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکل رہے ہیں۔ہمیںسمجھ لینا چاہئے کہ یہ کوئی سیر سپاٹا کرنے کا وقت نہیںہے ۔اگر زندگی رہے گی تو شام اور صبح کے اوقات میں ہم پھر گھوم لیا کریں گے لیکن اگر اس گھومنے کے شوق نے ہمیں کورونا سے روبرو کروادیا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے ۔بے شک حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن اب بھی اگر ہم نے ہوش کے ناخن لئے اور کورونا کا خوف کھا کر تمام لازمی احتیاطی اقدامات پر عمل کیا تو شاید ہمیں بہت جلد اس مصیبت سے نجات مل جائیے گی لیکن اگر ہم نے اسی لاپرواہی کا مظاہرہ جاری رکھا تو خدا نخواستہ یہ سفر کافی طویل ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی ہلاکت خیز بھی ۔اللہ پاک ہمیں عقل و شعور سے نوازے تاکہ ہم صحیح اور غلط میں تمیز کرسکیں۔