مزاج طبع تو ہم میں ہیں اور ہماری تحریریں بھی ہمارے مزاح کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ شائد ہماری مت ماری گئی کہ ہم نے اپنی فطرت اور مزاج کے برعکس لکھنے کی ٹھان لی۔ ’’محفل افسانہ‘‘ کی چند ایک مجالس میں شرکت سے ہمیں غم و یاس ، ملنے بچھڑنے اور دل کو چُھو جانے والے موضوعات کے حامل افسانوں کی پذیرائی اور دادِ تحسین حاصل کرنے والوں پر رشک آنے لگا۔ ہماری تحریریں سُن یا پڑھ کر سامعین اور قارئین گر ہنستے نہیں تو مُسکرا ضرور دیتے ہیں لیکن واہ واہ کرنے میں از حد کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ ہم نے دادِ تحسین اور واہ واہ حاصل نہ ہونے پر ذرا دھیان دیا کہ کیونکر میرے ساتھ ایسا ہورہاہے… اور ہم اس معتبر نتیجہ پر پہنچے کی عام فہم سامعین اور قارئین کی نظر میں گھسی پِٹی اور پٹھان کے بنائے ہوئے دائرے میں رہنے والی تحریریں ہی مہذب اور سلیقہ مند ہیں، تو ہم نے بھی ٹھان لی کہ مسخرہ پن چھوڑ کر اب ہم بھی سنجیدہ اور رنجیدہ کہانی لکھ کر سامعین اور قارئین کے لئے بارہ مصالحے کا ایسا چاٹ تیار کرلیتے ہیں کہ جس سے پبلک چار چار آنسو رو دے اور ہمیں افسانہ نگاروں کی فہرست میں اچھے پائیدان کی زینت بنادے۔ اپنی فطرت سے بعید تحریر کو جنم دینے کے لئے ہم بھی پھوہڑ اند از میں کہانی لکھنے بیٹھ گئے اور وہ بھی اُکڑوں۔ سُنا تھا کہ ایک اچھے افسانہ میں ایک پلاٹ یا کہانی ہوتی ہے، کردار ہوتے ہیں اور مکالمے وغیرہ… جب ہم بیٹھ گئے تو کہانی بنے گی ہی، کردار تو خود بخود آہی جائیں گے اور ماشا اللہ اُن میں گفت و شنید ہونا تو لازم سی بات ہے۔ بس اسی کو اچھا افسانہ کہتے ہیں…! ہم ایک نشست میں ایک ہی کیا کئی ایک افسانے لکھ سکتے ہیں…!
اللہ خیر کرے…اب ہم منجھے ہوئے افسانہ نگار کی طرح کہانی لکھنے بیٹھ گئے۔ اپنے بال بکھیر دیئے۔ گوکہ ہم سگریٹ نوشی کو اپنی صحتِ ناتواں کے لئے مضر تصور کرتے آئے ہیں، لیکن اچھے افسانے کو وجود میں لاتے وقت سگریٹ کے کش مارنا ماہروں نے لازم قرا ردیا ہے۔ اس لئے ہم نے بھی ایک سوکھے سگریٹ کے کش لگانے شروع کردیئے۔ چونکہ افسانہ موضوع کے اعتبار سے دکھ اور رنجیدگی کا مطلوب تھا اِس لئے ہم نے کھڑکیوں کے پردے کھینچ کر اپنے کمرے کو اندھیرے میں ڈبودیا، تاکہ تحریر میں اور بھی سنجیدگی آئے… اور ہم دُکھ بھرے افسانے کو اپنے دماغ میں لانے کے جتن کرنے لگے۔ ہمارے دل اور دماغ کے سُراور تال چونکہ ’لے‘ میں ہیں اِس لئے ہمیں ظرافت کے سوا کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ بہت سارے موضوعات لاشعور سے نکلنے کے لئے اوتاولے ہوئے جارہے تھے۔ بہت ہی سرد اور گرم جنگ کے مراحل سے گزر کر ہم نے ایک موضوع چن ہی لیا۔ یہ اخذ کیا کہ یہ تحریر عوام الناس کے رونگھٹے کھڑے کرنے میں کامیاب ہوگی اور مشتاق کینیؔ بھی کہیں نام لینے کے لائق بن جائیگا۔ ہمارے لئے اب یہ افسانہ تحریر کرنا غیرت و آبرو کے مقام کو بچانے سے بھی اونچا ہونے لگا۔ چونکہ ہم اپنے مزاج اور فطرت کے برعکس طبع آزمائی کرنے جارہے ہیں، اس لئے خلفشار اور تذبذب بھی ارد گرد ہی منڈلا رہے تھے۔ کبھی سر کُھجانے میں دُکھی افسانہ ڈھونڈتے، کبھی عینک سے آنکھیں اٹھاکے سنجیدہ افسانہ کھوجنے لگتے… ہماری مشکلات بڑھتی ہی جارہی تھیں۔ فطرت سے چھیڑ چھاڑ تباہی اور رسوائی کا باعث بنتی ہے،یہ ایک ایسی بات ہے جس سے کوئی بھی ذی ہوش آدم انکار کر ہی نہیں سکتا، لیکن ہم نے پھر بھی ڈٹے رہنے کا عزم کرلیا۔ جب اتمام حجت کے سارے مراحل طے ہوچکے تو پھر بھی ہم ایک عجیب قسم کی کیفیت سے دوچار تھے۔ دل میں آیا کی پھوٹ پھوٹ کر روئیں لیکن یہ رونے کا مقام نہیں تھا بلکہ اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرنے کی گھڑی تھی۔ اپنے اعصاب چست درست کر کے ایک سنجیدہ افسانہ وجود میں لانے کی ایک بار بھر سعی کرنے میں جُٹ گئے۔
بڑی مشقت اور عرق ریزی کے بعد ہم نے ایک دکھی اور دل کو چھو جانے والا افسانہ وجود میں لایا۔ بہت محنت اور سمجھ بوجھ کو بروئے کار لاکر الفاظ اور جملے ترتیب دیئے۔ ہم مطمئن ہوئے کہ ہم کو اب افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے سے کوئی بھی مائی کا لعل روک نہیں سکتا۔ دل خوشی سے سرشار ہوا جارہا تھا لیکن دل کے ایک نرم گوشے میں اِس ’دکھی افسانہ‘ کے سبب اتھل پتھل مچی ہوئی تھی۔ اس اتھل پتل کو ہم خاطر میں نہ لاتے ہوئے کسی ’محفل افسانہ‘ کے متلاشی ہونے لگے۔ یار دوستوں سے بھی گوش گزار کردیا کہ کہیں بھی ’محفل افسانہ‘ کا اہتمام ہو تو ہمیں پہلی فرصت میں اطلاع کریں۔ ہمارے لئے اُس وقت آسماں پر یکایک قوس قزح نکل آئی، جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہماری بغل میں ہی ایک انجمن کے زیر اہتمام ایک ’محفل افسانہ‘ منعقد ہونے جارہی ہے۔ہمارے مسکراتے چہرے پر بڑے غضب کی بشاشت رقص کرنے لگی۔منتظمین سے ملاقات کے لئے ہم نے اثر و رسوخ بروئے کار لانے کا عمل شروع کیا اور بلاآخر ہم منتظمین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم بھی صاحبِ قلم ہیں… شائد وہ بھی اپنی محفل کو چار چاند لگانے کے لئے ہم جیسے لکھاریوں کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے ہمیں ہونے والی نشست میں ساتھ لانے کی استدعا کی۔
محفلِ افسانہ کی تاریخ کا ہم بے صبری سے انتظار کرنے لگے۔ کئی بار اپنے تازہ اور دُکھی افسانہ’خوابِ ریزہ ریزہ‘ کو الگ الگ انداز سے پڑھ کر رٹ لیا۔ اپنے آپ کو کو افسانہ سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اپنا حلیہ، اصل حلیئے سے اِس قدر بدل دیا کہ ہم بھی اپنے آپ سے پوچھنے لگے کہ ’ہم آپ کے ہیں کون؟‘۔ اللہ اللہ کرکے محفلِ افسانہ کا دن آہی گیا۔ ہم بڑے ہی چائو سے محفل کی طرف چل دیئے۔ وہاں کچھ جانے پہچانے چہروں کے ساتھ ساتھ کچھ اجنبی اور انجانے بھی تھے۔ ہماری جان پہچان والے ہمیں دیکھ کر حسبِ دستور مسکراتے ہوئے ہمارے وہاں آنے پر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ شائد اس اُمید پر کہ ہماری تحریر اُن کو ہنسنے یا کم از کم مسکرانے پر مجبور کر ہی دے گی۔ لیکن ہمارا پہناوا اور چال ڈھال دیکھ کر انتشار اور تذبذب میں تھے۔ انہیں گمان بھی نہ تھا کہ اُن کی اُمیدوں پر پانی پھرنے والا ہے۔ کہنہ مشق، تیز دھار والے، شکی اور نون میں نکتہ نکالنے والے کئی افراد محفل کو رونق بخشے ہوئے تھے۔ محفل میں چند ایک افسانے پڑھکر سُنائے جانے اور اُن پر تبصرہ ہونا طے پایا۔ ہماری تازہ تخلیق بھی چنندہ افسانوں کے زمرے میں آگئی۔ کارروائی شروع ہوئی… بہت ہی اداکاری اور ہاتھ پائوں ہلا ہلا کر افسانے پڑھے جانے لگے اور بعد میں اُن کی چمڑی ہر ایک حاضر محفل نے اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُدھیڑ دی۔ آخر میں جب ماہروں، اناڑیوں، شیروں بکروں اور کالے گوروں نے ہمارے محنت اور جوڑ توڑ سے بُنے ہوئے افسانہ کے پرزے پرزے الگ کرکے رکھ دیئے تو ہماری عقل ٹھکانے آگئی۔ چونکہ ہم نے آج فطرت اور مزاج کے برعکس کوئی چیز تحریر کرنے کی حماقت کی تھی،اس لئے ہمارے افسانہ کے ساتھ ساتھ ہمارے بھی چیتھڑے اُڑنے لگے۔ ہمارے افسانہ کی بے دردی سے چیر پھاڑ کی جارہی تھی اور کبھی کبھی کوئی نشتر ہماری چمڑی کو چیر کر دل میں بھی پیسوت ہوتاتھا۔ ہم نے سوچا کہ اب بہت ہوگیا، چھنگلی کے اشارے سے ’’چھوٹی ضرورت‘‘ کا بہانہ تراش کر فوراً بھاگ جانا چاہئے… مگر بھاگتے بھی کدھر سے؟ فرار کے سارے راستے بند تھے۔ دل اور چہرہ مضبوط کرتے ہوئے اپنی درگت مسکراتے ہوئے برادشت کرنے میں ہی سمجھداری نظر آئی۔
���
کینی ہائوس، کورٹ روڑ، سرینگر,موبائل نمبر؛9906633004