ریاستی سرکار نے وادی کشمیر میں34سیٹلائٹ چینلوں کی نشریات پر پابندی عائد کرکے قدغنوں اور پابندیوں کی تاریخ میں ایک اورنیا اضافہ کیا ہے، انٹرنیٹ پر پہلے سے ہی پابندیاں عائید ہیں اور اب اس نئے اقدام سے مرکزی و ریاستی حکومتوں کا یہ ارادہ واضح ہوکر سامنے آیا ہے کہ مزاحمتی سیاست کے توڑ میں اُس حکمت عملی کو سرعت کے ساتھ روبہ عمل لایا جا رہا ہے، جو ڈویل ڈاکٹر ین کے نام سے موصوم ہے اور جسکا مطمح نظر کشمیری عوام کو بے اختیار بنانے کے ساتھ جدید دنیا سے منقطع کرکے اُسے سیاسی و اقتصادی پسماندگی کا شکار بناناہے۔ ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت کی ہدایات پر ریاستی سرکار نے یہ فیصلہ لے کر بظاہر امن وقانون کی صورتحال سے نمٹنے کی دلیل پیش کی ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے لوگوں کے آئینی و سیاسی حقوق کو کس ڈھٹائی کے ساتھ پس و پشت ڈال دیا گیا ہے، اُس کی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ عوام کی بہتری کے نام پر عوام کے بنیادی حقوق کو ہی معطل و منسوخ قرار دینا ایک ایسی سوچ کی دلیل ہے، جس کےلئے کسی بھی جمہوری سسٹم میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، جبھی تو عالمی سطح پر انسان کے بنیادی حقوق کو اتفاق رائے کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے اوردنیا کے سارے ممالک حقوق انسانی کے عالمی اعلامیہ کے فریق ہیں، اس عالمی اعلامیہ کے مندرجات کو آہنی حیثیت عطا ہوئی ہے اور بھارت بھی اس اعلامیہ کا شریک ہے۔ ایسے حالات میں اس نوعیت کا حکم جاری کرتے ہوئے نہ صرف متفقہ عالمی مؤقف کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں ہیںبلکہ آئین کی سراسر خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ ساری دنیا اس وقت ڈیجٹلائز ہو رہی ہے اور بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے ڈیجٹل انڈیا کو فکری و عملی ترقی کا نعرہ بناکرہندوستان کو نئی صدی میں لے جانے کی تعمیری جست کے طور پر عوام کو سامنے پیش کیا، لیکن آج اس کے بین بین اُس خطے میں، جسے سرینگر سے لیکر نئی دہلی تک حکمران او ر سیاستدان ملک کے سر پر سجا تاج جتلاتے ہوئے تھکتے نہیں، پابندیاں عائید کرکے اس جذبے کو بے دست و پاء کر دیا گیا ہے، جسکی اسکے سواء کوئی تعبیر نہیں ہوسکتی کشمیر کے بارے میں حکمرانوں کی سوچ ، انداز اور پالیساں بالکل جداگانہ نوعیت کی ہیں، جو نہ تو علمی سوچ سے میل کھاتی ہیں اور نہ ہی آئینی حدود سے ہم آہنگ ہیں۔ کشمیر میں میڈیا پر آئے روز کی پابندیوں کی تاریخ نئی نہیں ہے بلکہ ماضی میں بار بار ایسےحربے استعمال کئے گئے ہیں۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد جموںوکشمیر میں قائم کی گئی ایمر جنسی ایڈمنسٹریشن نے بالکل ایسی ہی دلیلوں ، جو آج پیش کی جارہی ہیں، کی بنیاد پر ریاست میں ریڈیو پاکستان سننے پر پابندی عائد کر دی تھی، جسکے دوران ایسے بے شمار واقعات پیش آئے جن میں نہ صرف یہ ریڈیو نشریات سننے والے گرفتار کرکے پابند سلال کر دیئے گئے بلکہ ریڈیو بھی بحق سرکار ضبط کئے گئے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت بھار ت اور پاکستان کے درمیان جنگ وجدل کے بہ سبب ریڈ یو سٹیشن ایک دوسرے ملک کے خلاف پروپگنڈا کے کلیدی آلے تھے، لیکن اسکے باوجود وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ فیصلہ غلط تھا اور مجبوراً حکومت کو اس پر عمل درآمد بند کرنا پڑی۔ آج صورتحال بالکل مختلف ہے آج کم و بیش سارے میڈیا چینل تجارتی نوعیت کے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کے لئے اولین ترجیح اپنا مافع ہوتا ہے ۔ زیر تعزیر لائے گے یہ 34چینل بھی ان سے مختلف نہیں۔ ان میں بیش تر مختلف مذہبی فرقوں، تفریح طبع اور پکوانوں کی تشہر سے تعلق رکھتی ہیں، جبکہ چند ہی خبروں کی ترسیل سے وابستہ ہیں اور نہیں پروپیگنڈا چینل قرار دینا کسی بھی طور پر قرین انصاف نہیں۔ اسکے برعکس اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ملک بھر میں درجنوں ایسے نیوز چینل ہیں جو براہ راست کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف زہر ناک پروپگنڈا کرنے میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ مرکز میں حکمران جماعت کے نمائندے اور قائدین انکے پروگراموں میں شامل ہو کر نہ صرف انکی سرگرمیوں کو جواز بخش کرا نکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ بعض اوققات جلتی پر تیل ڈالنے سے بھی احتراز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی وزیراعلیٰ ، جو اس صورتحال میں ریاستی عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں بے بس نظر آرہی ہیں، نے بھی سرینگر میں دربار سجنے کے موقع پر نیوز چینلوں پر کشمیر اور کشمیریوں کےخلاف ہو رہے پروپگنڈا پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یہ سلسلہ بند کرنے کی گذارش کی ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ایک جانب نفرت انگیز پروپگنڈا کو روکنے کے نام پر قدغنیں اور پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور دوسری جانب گزارشیں کی جارہی ہیں۔ تحلیل و تجزیہ کی چھلنی میں اس صورتحال کو چھانا جائے ، تو ریاستی سرکار کی بے اختیاری کی حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ ماننا ہے کہ کشمیر میں صورتحال بگاڑنے والوں کی تعداد قلیل ہے اور غالب اکثریت معیشی صورتحال کی بہتری کےلئے امن و امان کی بہتری کی حامی ہے، لیکن اپنے تازہ اقدام سے انہوں نے غالب اکثریت کو بے اختیاری اور بے بسی کی صورتحال سے دو چارکرکے کشمیری عوام کو پسماندگی کی گھاٹیوں میں دھکیلنے والی قوتوں کو ایسا عملی تعاون فراہم کیا ہے، جسکی کوئی امید بھی نہیں کرسکتا تھا۔