کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر

Towseef
11 Min Read

غور طلب

مفتی رفیق احمد قادری

آج کی نئی نسل سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ایسے گم ہے کہ اسے اس کے طلسمی دنیا سے نکالنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ نومولود بچے سے لیکر شیخ فانی تک اس کے جادو سے متأثر ہیں۔ یہ ہماری شامت کہئے کہ جب سے موبائل فون ہمارے ہاتھ میں آیا ہے تب سے ہمارے ہاتھوں سے کتابیں نکل گئیں ہیں۔کتب بینی، مطالعہ اور پڑھنے کی عادت وروش بھی نکل گئی۔پہلے علی الصباح ورزش اور کسرت کے بعد لوگ عموماً اخبار پڑھا کرتے تھے۔ اخبار پڑھنا زندگی کا ایک جزئِ لا ینفک سمجھا جاتا تھا لیکن زمانے کی گردش نے لوگوں کے مزاج وطبیعت کو بھی بدل دیا۔اخبار کی جگہ موبائل فون آگئے۔ خبروں کی جگہ سوشیل نیٹ ورک آگئے۔ اس وقت میرے حاشیہء ذہن پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر ابھر رہا ہے۔

ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح و شام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو

کتب بینی ہی قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔تعلیم وتعلم کے بغیر کوئی قوم دنیا میں ابھرکر آگے آ نہیں سکتی جو بھی سماج آج ترقی کی راہوں پر گامزن نظر آرہی ہے وہ صرف اور صرف تعلیم وتعلم ہی سے ہے۔ علم وہ نور ہے جو اندھیری راتوں کو روشن صبح میں بدل دیتا ہے۔ اندھیرے میں مشعل راہ کا کام کرتا ہے۔ کٹھن سے کٹھن منزل بھی علم کے ذریعے آسان ہو جاتی ہے۔علم کا حصول کتابوں پر منحصر ہے۔ کتابوں کے بغیر علم حاصل نہیں کیا جاسکتا۔امام بخاری فرماتے ہیں العلم فی متون الکتب یعنی علم کتابوں کے سینے میں پیوست ہے۔ اسی لئے جس شخص کو کتابوں سے وابستگی کی نعمت کا ادراک ہو جائے تو اُس کے لیے بغیر مطالعہ کے زندگی گزارنا دشوار ہو جاتا ہے، یہی اس کے دن رات کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہیں، وہ اگر بیمار بھی ہوتا ہے تو کتاب ہی اُس کا علاج ہوتی ہے، رنج و بے چینی کی حالت میں کتاب ہی اس کی غمخواری کا سامان فراہم کرتی ہے، مشکلات ومصائب میں بھی وہی تسلی کا باعث ہوتی ہے کیونکہ کتاب ہی تو اُس کے شب وروز کی دمساز و ہمراز بن چکی ہے۔در حقیقت کتاب انسانی سوچوں کو گہرائی اور آگہی عطا کرتی ہے۔کتاب انسان کے اندر خوداعتمادی پیدا کرتی ہے یونانی ڈرامہ نگار پوری ہیڈس نے لکھا ہے کہ ’’جو نوجوان مطالعہ سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کیلئے مردہ ہوتا ہے۔‘‘

تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کی منازل طے کرتی گئیں۔ جیسے ہی کتاب و علم سے ناطہ ٹوٹا پستی اور ذلت ان کی مقدر بن گئی۔ جیسے کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

جو قوم جہالت ونادانی کے گہرائیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھیں پھر وہی قوم دنیا میں تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہوکر ابھرتی ہے۔ یعنی یورپ اور اہل یورپ کے بارے میں قرآن کہتا ہے۔ حَتّٰی اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمَا قَوْمًا لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ قَوْلًا -یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اس نے ان پہاڑوں کے آگے ایک ایسی قوم کو پایا جو کوئی بات سمجھتے معلوم نہ ہوتے تھے۔(سورۃ الکہف:93)

آج یہ یورپ پوری دنیا پر حکومت کررہی ہے اس کی واحد وجہ تعلیم وتعلم ہی ہے۔ انہوں نے کتابوں سے رشتہ جوڑا تو کامیابی وکامرانی انکی قدم چومنے لگی۔ اس کے برعکس ہم مسلمانوں نے کتابوں سے رشتہ توڑا تو ذلت وخواری، شکست وریخت ہماری مقدر بن گئی۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم پھر سے کتابوں سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اس کتابی تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکیں۔ ذرا سنجیدگی سے آپ خطیب لا ثانی مایہ ناز مفکر ڈاکٹر عائض القرنی کا اقتباس بھی پڑھ لیجئے وہ مطالعہ اور کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ مطالعہ اور کتب بینی سے وسوسہ اور غم دور ہوتا ہے۔ ناحق لڑائی جھگڑے سے حفاظت رہتی ہے۔ فارغ اور بے کار لوگوں سے بچاؤ رہتا ہے۔ زبان کھلتی ہے اور کلام کاطریقہ آتا ہے۔ ذہن کھلتا ہے اور دل تندرست ہوتا ہے۔ علوم حاصل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے تجربات اور علماء وحکماء کی حکمتوں کاعلم حاصل ہوتا ہے۔ دینی کتب کے مطالعہ سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ مشہور فلسفی جاحظ مطالعہ کی وصیت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مطالعہ سے غم دور ہوتی ہے۔ آپ کی کتاب آپ کا سب سے اچھا دوست ہے جو کبھی آپ سے اکتاتا نہیں۔ نہ ہی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ہی بے ایمانی کرتا ہے؛ بلکہ کتاب ایسا دوست ہے جو سراپا اخلاق ہے۔ جس سے جس قدر فائدہ اٹھایا جائے وہ خوش ہوتی ہے۔ کتاب کے ذریعہ آپ کی زبان فوائد اور حکمتوں سے بھرجائے گی۔ لوگوں میں آپ احترام کی نظر سے دیکھے جائیں گے۔ کتاب کے ذریعہ انسان حکمرانوں کا مشیر بن جاتا ہے۔ کتاب کے ذریعہ آدمی بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ کتاب سفر وحضر، رات دن آپ کو فائدہ دے گی اور کبھی تھکاوٹ اور بے چینی کا مظاہرہ نہ کرے گی۔ کتاب کے ذریعہ آدمی فضول مجلس آرائی سے بچ جاتا ہے اور لایعنی امور سے حفاظت رہتی ہے۔ (لاتحزن)

مندرجہ بالا اقتباس سے مطالعہ اور کتب بینی کی اہمیت اور افادیت خوب جگ ظاہر ہے۔ اسی اہمیت کی وجہ سے ہمارے اسلاف ہمیشہ کتابوں سے جڑے رہتے تھے۔کتابوں سے ان کا اتنا گہرا تعلق تھا کہ زندگی کے اہم حصہ یعنی ازدواجی رشتہ تک کو وہ فراموش کر بیٹھے۔ ہمارے اسلاف میں کئی سارے ایسے بھی بزرگ ہیں جن کی زندگی کا ماحصل صرف اور صرف کتب بینی اور مطالعہ ہی رہا ہے۔ مشہور ومعروف محدث ومؤرخ حضرت علامہ عبد الفتاح ابو غدہ نے ایک ضخیم کتاب ہی ترتیب دی ہے۔ جس کا عنوان کچھ یوں ہے۔ العلماء العزاب الذین اثروا العلم علی الزواج- یعنی وہ علماء جنہوں نے علم کی ترویج واشاعت کو ازدواجی زندگی پر ترجیح دی۔اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار ائمہ کرام گزرے ہیں جن کی پوری زندگی مطالعے اور کتابوں کے محبت اور ذخیرہ اندوزی میں گزر گئی۔ جیسے امام اسحاق بن راہویہ نے سلیمان بن عبد اللہ زغندانی کی بیٹی سے شادی اس لیے کی تھی کہ اس سے انھیں امام شافعی رحمہ اللہ کی جملہ تصانیف پر مشتمل کتب خانہ مل جانا تھا(انساب للسمعانی، ۶/۶۰۳) چھٹی صدی کے ایک حنبلی عالم امام ابن الخشاب کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب پانچ سو درہم میں خریدی، قیمت ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی، لہٰذا تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کیا، اس طرح اپنے شوق کی تکمیل کی (ذیل طبقات الحنابلۃ، ۲/۱۵۲)۔

ایسے بے شمار واقعات تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔ ان واقعات اور اسلاف کی پاکیزہ زندگی سے عبرت حاصل کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی چنگل سے اپنے آپ کو نکال کر کتابوں کی دنیا میں سیر کرائیں۔ اور روزانہ بلا ناغہ مطالعہ اور کتب بینی کی عادت ڈالیں۔ کیونکہ کتب بینی انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی ناہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ جب انسان گردشِ زمانہ کی تلخ واقعات اور ذاتی مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی لے کر ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سمجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے۔ اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھنے لگتا ہے۔جب انسان اپنے آپ کو سمجھنے لگتا ہے تو کائنات ارض وسماء کے تمام پوشیدہ رازوں کو اپنے سینے میں سمونے لگتا ہے۔ گویا اس وقت انسان کا سینہ گنجینہء رحمت خداوندی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں مطالعہ اور کتب بینی کی توفیق عطا فرمائے اور کتابوں کو اپنانے اور دوست بنانے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ

سرورِ علم ہے کیف ِ شرب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
rafeequean@gmail.com>

Share This Article