سرینگر/ سرینگر میںبیٹے کے انتظار میں باپ زندگی کی جنگ ہارگیا جبکہ لخت جگر کی جدائی میں ماں کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب جاری ہے جس کی وجہ سے اس کی بینانی بھی متاثر ہوئی ہے۔ رعناواری علاقے کا رہنے والا ایک نوجوان 8برس قبل ایک غیر سرکاری رضاکار انجمن ’’مایاکلفٹ سینٹر‘‘ سے وابستہ تھا اور تربیت کے سلسلے میں بیرون ریاست گیا جہاں اُسے قید کیا گیا اور آج تک بشیر احمد بابا ولد غلام نبی بابا اسیری کے دن کاٹ رہا ہے۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ این جی او ان بچوں کا مفت علاج کراتی ہے جن کے ہونٹ جنم سے ہی کٹے ہوئے ہوتے تھے اور مفت علاج اور جراحی کے ذریعے ان کے چہروں اور ہونٹوں کو خوبصورت بنایا جاتا تھا۔ بشیر بابا کو مزید تربیت کیلئے احمد آباد گجرات بھیجا گیا اور ٹریننگ کی مدت پوری ہونے کے بعد مذکورہ نوجوان گھر واپس آنے کی تیاری کر رہا تھا ۔گھروالوں کے مطابق اسی اثناء میں’’ انسداد دہشت گردی اسکارڈ‘‘گجرات نے بشیر احمد کو اپنی تحویل میں لیا اور وڈورہ جیل میں ڈال دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ’’ اے ٹی ایس گجرات نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بشیر احمد بابا کی تحویل سے کوئی بھی قابل اعتراض شئے برآمد نہیں ہوئی ہے ، لیکن پھر بھی بشیر احمد بابا گذشتہ8 برسوں سے جرم بے گناہی میں اسیری کے دن کاٹ رہا ہے‘‘ ۔ بشیر احمد کے گھر والے اس امید میں اپنے لخت جگر کا انتظار کررہے تھے کہ وہ تربیت ختم ہونے کے بعد نئے عہدے پر کام کرے گا ،تاہم ان پر اُس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب ٹی وی نیوز چینل پر بشیر احمد باباکی گرفتاری کی خبر نشر کی گئی ۔ ٹی وی پر اپنے بیٹے کی گرفتاری کی خبر سن کر اس کا والد ششدررہ گیا اور بیٹے کی جدائی سے اُسے ایک مہلک بیماری نے جکڑ لیا۔ بشیر بابا کا والد آخری وقت تک اپنے بیٹے کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آج نہیں تو کل واپس آئے گا،مگر اس کا یہ ارمان آخری وقت تک پورا نہیں ہوا اور وہ پیوند خاک ہوگیا۔مذکورہ نوجوان کی ایک بہن ہاتھوں میں مہندی لئے اپنے بھائی کا انتظار کرتی رہی کہ میرا بھائی مجھے رخصت کرے گا۔بشیر احمد کی والدہ کی آنکھوں سے اُسی روز سے آنسوں کا سیلاب جاری ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی بینائی بھی اب متاثر ہوئی ہے۔ایک طرف لخت جگر کی جدائی کا غم دوسری طرف شوہرکی موت اور گھر کی ابتر مالی حالت نے اس کو اور زیادہ پریشان کردیا ہے ۔ اپنے بیٹے کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بشیر احمد کی والدہ نے کہا کہ کسی جرم کے بغیر ہی میرا لخت جگر گذشتہ8 برسوں سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہا ہے جبکہ اس ضمن میں کوئی بھی انسانی حقوق کی تنظیم آواز نہیں اُٹھارہی ہے دوسری جانب کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک ان کی کسی بھی قسم کی معاونت نہیں کی۔بے تاب آنکھوں سے آنسوئوں کی دہار کے ساتھ بشیر احمد کی ضعیف والدہ نے مقامی قومی و بین الاقوامی حقوق البشر کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ بشیر احمد کی رہائی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے کیوں کہ اسکا بیٹا جرم بے گناہی میں قید ہے ۔