نئی دہلی//کیا کسی مفتی کے ذریعہ جاری کئے گئے فتوی کی بنیاد پر کوئی شخص اسلام سے خارج ہوسکتا ہے ؟ کیا فتوی جاری ہونے کے بعد وہ شخص مسلمان نہیں رہے گا ؟ بریلی کی ندا خان کے معاملہ کے بعد ایسی بحثیں زور پکڑنے لگی ہیں۔ الزام ہے کہ بریلی کے دار الافتا نے ایک فتوی جاری کرکے تین طلاق اور حلالہ کے خلاف آواز بلند کرنے والی ندا خان کو اسلام سے خارج کردیا ہے۔جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تو پھر ایک فتوی جاری ہونے کے بعد اسلام سے خارج ہونے کی حقیقت کیا ہے۔ دار العلوم ندوہ العلما لکھنو کے مفتی حسن منصور نے کہا کہ کسی بھی مفتی کا دیا گیا فتوی کسی کو اسلام سے خارج کرنے کا حکم نہیں دیتا ہے۔ جو فتوی اسلام سے خارج ہونے والی اطلاع دے رہا ہے ، وہ یہ بتاتا ہے کہ آپ نے جو کام کیا ہے یا پھر جو بات کہی ہے ، وہ شریعت کے اعتبار سے غلط ہے۔ اس طرح آپ اسلامی قوانین کے مطابق اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کبھی کبھی یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ اسلام سے خارج ہونے پر کن کن چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ایک اطلاع ہوتا ہے نہ کہ حکم۔وہیں دار العلوم دیوبند کے مفتی راشد نے کہا کہ کسی کو اسلام سے خارج کرنے کا حق یا عہدہ کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ اسلام سے خارج ہونے والے اعمال انسان خود ہی کرتا ہے۔ قرآن کے خلاف جاکر کئے گئے کام یا بات سے کوئی بھی شخص خود بہ خود اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کیلئے نہ تو اس کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اس شخص کے خلاف فتوی جاری کرے یا کہے کہ تمہیں اسلام سے خارج کیا جاتا ہے۔ فتوی یہ بتانے کیلئے دیا جاتا ہے کہ یہ کام اسلام کے خلاف ہے۔ ایسا کرنے سے آپ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔