عصمت فروشی کو کرۂ ارض کے قدیم ترین پیشوں میں سے شمار کیا جاتا ہے ۔پہلی بار کب کسی بردہ فروش نے بولی لگاکر یا معاوضہ وصول کرکے عورت کو کسی ہوس کار کے پاس بیچ ڈالا ،یہ بتانا کافی مشکل ہے مگر یہ بات بہر حال صاف ہے کہ دنیا میں غیر اخلاقی کاروبار میں سب سے پہلے جو جنس بیچی اور خریدی گئی وہ ضرور کسی صنف نازک کا جسم ہی رہا ہوگا ۔قدیم ہندوستان میں اگر بہت پیچھے کی طرف سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں کے راجہ مہاراجوں نے اپنے رقیب یا دشمن راجا ئوں کو دوستی کے پردے میںہلاک کرنے کاایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا تھا ۔وہ کچھ خوبصورت لڑکیوں کو حکومت کی نگرانی میں بچپن سے ہی قلیل مقدار میں زہر کھلایا پلا دیتے تھے اور شباب آنے تک اُن لڑکیوں کا مکمل جسم زہریلا بن جاتا تھا ۔ضرورت پڑنے پر دشمن راجہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا جاتا تھا ۔پھر دوستی پر مہر ثبت کرنے کے لئے اُسے مہمان بناکر اپنے محل میں بلاکر اُس کی خوب مہمان نوازی اور خاطر مدارت کی جاتی تھی ۔ بعد میں عیش و عشرت کے لئے اُسے ویسی ہی ایک زہریلی لڑکی یعنی وِش کنیا ؔ کے ساتھ بھیج دیا جاتا تھا ۔تو ظاہر ہے کہ صبح کو راجہ کی لاش برآمد کرکے یہ مشہور کیا جاتا تھا کہ کثرت سوم رَس یعنی شراب پینے سے اُس کی موت ہوگئی ہے ۔
وقت نے کروٹ لی تقریباً سولہ سو برس پرانی تصنیف ’’کام شاستر‘‘نے فحاشی کے نت نئے طریقوں سے روشناس کرایا ۔اس کی ایک مثال کھجراؔہو کے منادر سے بھی ملتی ہے ۔ان مندروں کے دیواداسیوں کے جھرمٹ میں اپنی شرم گاہوں سے کام سوتر یعنی جنسی میل ملاپ کے ایسے مناظر درشائے گئے ہیں کہ عام لوگ بھاگ محسوس کرتے ہیں کہ پتھروں میں جان پڑگئی ہے اور اُن کی حالت غیر ہوجاتی ہے جب کہ شریف اور مہذب لوگ ایک سنسناتا ہوا غسل اپنے ہی پسینے سے کرتے نظر آتے ہیں ۔قطع نظر اس کے جنوبی ہند کے دروڈ نسل کے لوگ اپنے گناہوں سے نجات پانے کے لئے اپنی اولاد میں سے ایک بیٹی کو مندروں کے لئے وقف کردیتے ہیں ،یہ لڑکیاں مندروں میں ناچ گانے کی تعلیم پاکر اور جواں ہونے پر مندر کے مہنتوں اور متعلقہ شہر کے بڑے ،ذی اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں کی ناجائز دل بستگی کا سامان بنتی ہیں۔ایسی لڑکیاں ’’دیو داسیاں‘‘کہلاتی ہیں۔اُن بدنصیب اور انسانی ظلم کے شکار لڑکیوں یعنی دیو داسیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ہے ۔شباب ڈھل جانے اور اولاد پیدا کرنے کے بعد اُن سے آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں اور اُن کو ایک گندھے تھان کی طرح مندر سے باہر کردیا جاتا ہے ۔ناجائز طور پر پیدا ہونے والی اولاد نرینہ کو تلف کیا جاتا ہے، البتہ بیٹیاں ماں کی جگہ لے لیتی ہیں۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔آج بھی مرد کی ظلم و زیادتی کی شکار ایسی عورتیں مندروں کے سرد پتھروں کے ساتھ سرٹکراکر بے بسی کے آنسو بہاتی ہیں اور اپنے ضمیر کے خلاف اپنی ہی دل کے ٹکڑے چباچباکر بے حیا اور محبوس زندگی کے دن قید خانوں میں کاٹتی ہیں ۔حضرت محمود غزنوی لٹیرا نہیں تھا ،وہ لوٹ کے لئے نہیں آیا تھا ۔وہ ایک انسان تھا اور انسانی دردکو محسوس کرتا تھا ۔ بہر حال جانے دیجئے وہ ایک الگ موضوع ہے ،اُس پر کسی اور موقعے پر بات کریں گے ۔
تاریخ نے ایک نیا موڑ لے لیا ۔ظہور اسلام کے بعد فحاشی حرام ٹھہری بلکہ مرتکب کے لئے شرعی سزائیں بھی مقرر ہوئیں۔اس طرح سے جائز ازدواج کا چلن بڑھ گیا اور عورت کا مقام بلند ہوا۔اسلام نے عصمت فروشی کے تصور کوہی ختم کردیا مگر مسلم حکومتیں جب خلافت اور مجلس شوریٰ کو ترک کرکے یورپی غیر مسلم حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنے لگیں تو خادمائوں ،کنیزوں ،رقصائوں اور حرم سرا کی لونڈیوں کا چلن شروع ہوا جو فقط فحاشی کے نت نئے حربے تھے ۔مغلیہ دور میں بادشاہ اکبر نے مینا بازار سجاکر تسکین قلب و نظر کی راہیں استوار کیں۔
تاریخ نے پھر ایک پہلو بدلا ۔انگریزوں نے ہندوستان میں والیان ریاست کو خود مختار کردیا ۔اس لئے 563؍والیان ِ ریاست نے کھل کر اپنے طاغوتی کھیل کھیلنے شروع کردئے اور اس طرح سے عوام الناس کے لئے بھی بازار سجنے لگے ۔سن 1929ء میں بردہ فروشوں نے دہلی کے بڑے بڑے بازاروں میں عصمت فروشی کے اڈے کھول رکھے تھے جس کی وجہ سے ’’شرفاء‘‘اور اُن کی بیگمات کا بازاروں سے گزرنا مشکل ہورہا تھا ۔دہلی حکومت کی بلدیہ نے فیصلہ کیا کہ سب بردہ فروشی کے اڈوں کو کسی دور جگہ پر منتقل کردینا چاہئے۔اس طرح سے طوائفوں میں کھلبھلی مچ گئی کیونکہ ایسے میں اُن کے کاروبار پر اثر پڑسکتا تھا۔اس لئے طوائفوں نے مل کر ایک میٹنگ بلائی اور غور وخوض کرنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اس بارے میں رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ایک پرچہ جاری ہونا چاہیے۔اخبار کا نام طوائف رکھا گیا جو رجسٹریشن کرتے وقت ڈپٹی کمشنر کو پسند نہیں آیا، لہٰذا اخبار کا نام بدل کر’عروس ِؔنو‘ کردیا گیا ۔کچھ اخبارات میں باضابطہ اخبار کی اشاعت کا اعلان بھی چھاپ دیا گیا ۔اخبار کی مدیرہ شمیم پُتلی بمبئی والی تھی جس کے بارے میں صحافیوں کو بتایا گیا کہ و ہ ماہر زبان اردو ہے اورکسی سے لکھواتی نہیں بلکہ خود ہی لکھتی ہے۔اس کوشش کے بعد سن1950میں طوائفوں کا ایک جاذب نظر باتصویر ہفت روزہ لاہورؔسے چھپنا شروع ہوا۔اس میں طوائفوں کے اپنے قلم سے لکھے ہوئے مضامین آتے تھے ۔طوائفوں اور اُن کے بچوں کی تصاویر بھی آتی تھیں ۔عوام اور حکومت کے سامنے طوائفوں کی مشکلات رکھنا اور اُن کے موقف کی وضاحت اور حمایت کرنا اس اخبار کا مقصد تھا ۔عوام نے اس اخبار کا خیر مقدم نہیں کیا ،اس لئے یہ کچھ عرصہ بعد ہی بند ہوگیا ۔ڈاکٹر لطیفؔاحمد سبحانی کا تحقیقی مقالہ ’’ودربھ‘‘میں اردو صحافت کے مطابق طوائفوں کا ایک اور رسالہ اُس سے قبل دہلی سے شائع ہوا تھا جس کا نام’’ شمس النساء‘‘ تھا ۔یہ رسالہ طوائفوں کا ترجمان تھا اور اس کی مدیرہ بی اللہ دیؔنزاکت مراثن تھی۔
الغرض متعدد نثر نگاروں ،افسانہ نویسوں اور شعراء نے طوائف کو موضوع بناکر بہت کچھ لکھا ہے ۔اس موضوع کو لے کر کئی مشہور فلمیں جیسے بازوؔبند،زندؔگی یا طوفان،نرؔتکی،بازؔار ، سادھناؔ ،امرائو جانؔ ادا ء کے علاوہ جزوی طور اس موضوع کو سینکڑوں فلموں میں لایا گیا ہے۔مجموعی طور پر کہیں اس کو معاشرے کا ناسور کہا گیا ہے تو کہیں اسے مظلوم اور بے بس قرار دیا گیا ہے لیکن اس سے طوائف کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں پڑا۔وہ آج بھی آبرو باختہ کہلاتی ہے ۔سماج میں آج بھی اُس کا وہی مقام ہے جو پہلے تھا ،مگر آج تک کسی نے اس کے درد کو جاننے کی کوشش نہیں کی ۔اُس کے احساسات کو کسی نے محسوس نہیں کیا ، اُس کے رستے ناسور وں پر کسی نے پھاہا نہیں رکھا ۔آج تک یہ کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ طوائف کون ہے ؟ کیوں ہے؟کیسے بنی ؟ کس نے بنائی اور کیوں بنی ؟ اس بات پر آج تک کسی مرد نے غور اور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا ؎
عورت نے جنم دیا مردوں کو مرد وں نے اُسے بازار دیا
جب چاہا، مَسلا ،کُچلا ،جب چاہا، دُھتکار دیا
جن سینوں نے اُس کودودھ دیا، اُن سینوں کا بیوپار کیا
جس کو کھ میں اُن کا جسم ڈھلا، اُس کوکھ کا کاروبار کیا
……………………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995