نئی دہلی //فوج کے جنرل کورٹ مارشل نے ایک سال قبل کنٹرول لائن کے اُس پار فوج کی سرجیکل اسٹرائیک کے دوران پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اہلکار کوقصور وار قرار دیتے ہوئے تین ماہ قیدبا مشقت اور دو سال سروس سے محرومی کی سزا سنائی ہے۔مذکورہ اہلکار کو امسال جنوری کے مہینے میں بھارت کے حوالے کیا گیا تھا۔ 18ستمبر2016کو سرحدی قصبہ اوڑی میں ایک فوجی چھائونی پر جنگجوئوں کے حملے میں19اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔یہ حالیہ برسوں کے دوران فورسز پر جنگجوئوں کا سب سے خطرناک حملہ تھا۔حملے کے چند روز بعد یعنی29ستمبر کو بھارتی فوج نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں جنگجوئوں کے ٹھکانوں پر’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا دعویٰ کیا۔جس وقت سپیشل فورسز کی طرف سے یہ کارروائی انجام دی گئی، اسی دوران فوج کی37راشٹریہ رائفلز سے وابستہ سپاہی چندو بابو لال چوہان کنٹرول لائن عبور کرکے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوا جہاں پاکستانی فوج نے اُسے گرفتار کرلیا۔ابتدائی طور پر یہ بتایا گیا کہ مذکورہ اہلکار غلطی سے حد متارکہ کے اُس پار چلا گیا، تاہم پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ برے سلوک کی وجہ سے چوکی چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور اُس نے خود کو پاکستانی فوج کے حوالے کردیا۔اہلکار کا تعلق مہاراشٹرا سے ہے اور اس کی سرحد پار گرفتاری کی خبر سن کر اس کی دادی صدمے سے فوت ہوگئی تھی۔اسی دوران بھارت نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی سطح پر ہاٹ لائن کے ذریعے مذکورہ اہلکار کا معاملہ اٹھایا جبکہ وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں قائم ہائی کمیشن کے توسط سے متعلقہ پاکستانی حکام کو اس بارے میں آگاہ کیا۔چار ماہ بعدپاکستانی حکام نے بالآخر7اکتوبر کو سپاہی چوہان کی وہاں موجودگی کی تصدیق کی اور مذکورہ اہلکار کو جذبہ خیر سگالی کے تحت21جنوری2017کو واگہ سرحد پر بھارتی حکام کے حوالے کردیا گیا۔ مذکورہ اہلکار کی واپسی کے فوراً بعد فوج نے اس کیخلاف جنرل کورٹ مارشل کے احکامات صادر کئے۔ کورٹ مارشل کے دوران سپاہی بابو لال سے جب پوچھ تاچھ کی گئی تو اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ جان بوجھ کر لائن آف کنٹرول کے اُس پار چلا گیا تھا۔معلوم ہوا ہے کہ بدھ کو کورٹ مارشل کارروائی اختتام کو پہنچ گئی اور فوجی عدالت نے سپاہی بابو لعل کو قصور وار ٹھہرا کر2ماہ29دن قید بامشقت کی سزا کا حقدار قرار دیا ۔اس کے علاوہ مذکورہ اہلکار کوسزا کے بطور دو سال کی سروس سے محروم کردیا گیا ہے، تاہم متعلقہ اعلیٰ حکام کی طرف سے اس سزا کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔مذکورہ اہلکار کورٹ مارشل کے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا حق رکھتا ہے۔