علیذے نجف
ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے رویے پائے جاتے ہیں جو اگرچہ یوں ہی یا کسی روایت کے ساتھ اپنائے جاتے ہیں ،لیکن اس کے نتائج منفی اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ ان غلطیوں کا دفاع اپنی اچھی نیت کو دلیل بنا کر کرتے ہیں، وہ اقدامات و معاملات کی نتیجہ خیزی پہ نہ غور کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی صد فیصد ذمےداری قبول کرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان منفی نتائج کے حامل رویوں کی نشوونما ہوتی رہتی ہے، جس کے منفی نتائج معاشرے اور افراد دونوں کو ہی یکساں طور پہ متاثر کرتے ہیں۔ اسی طرح کے رویوں میں سے ایک رویہ والدین کا بچوں کے حوالے سے کنٹرولنگ ہونا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے بچوں کی نفسیات پہ ایسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ وہ ساری زندگی اس کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے بچے کی فطری جستجو اور اس کی انفرادیت کے خاتمہ ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بچے اپنی زندگی کی پروگرامنگ خود نہیں کر پاتے ،نتیجتاً ان کی شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور دونوں ہی تشنۂ تکمیل رہتی ہے۔ وہ نہ اپنے والدین کی توقعات پہ پورا اتر پاتے ہیں نہ ہی اپنی خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنا پاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ والدین جو اپنے بچوں کے سب سے بڑے خیرخواہ ہوتے ہیں، آخر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسی زیادتیاں کیوں کر جاتے ہیں۔ کیا وہ اپنی ان غلطیوں کا شعور رکھتے ہیں یا محبت کے نام پہ انھیں حد سے زیادہ سکیورٹی دینے کی خواہش میں وہ ایسا کر جاتے ہیں؟ آئیے اس کے جواب میں ہم والدین کی بنیادی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین کی اولاد کے تئیں محبت اور خلوص پہ شک نہیں کیا جا سکتا ،بچے ان کی آرزوؤں اور جستجؤوں کا محور ہوتے ہیں۔ بچے جب چھوٹے اور نا سمجھ ہوتے ہیں تو ماں باپ انھیں نہ صرف بولنا اور چلنا سکھاتے ہیں بلکہ انھیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ کس موقع پہ انھیں کس طرح پیش آنا ہے۔ انھیں صحیح عادات و اطوار سکھاتے ہوئے غلط رویوں سے بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ان کی ذمےداریوں میں شامل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ والدین کی توجہ اور فکر کا مرکز و محور بچے ہوتے ہیں۔ بےشک یہ والدین کی وہ قربانی ہے جو انھیں تمام رشتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اب ایسے میں والدین ہونے کے مطلب قطعا ًیہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی حد یا باؤنڈری کا دھیان رکھے بغیر بچوں کے ہر فیصلے یا سوچ کو کنٹرول کرنا شروع کردیں۔ ابتدائی مرحلے میں بچے والدین پہ مکمل طور سے انحصار کرتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے ان کی سمجھ کی نشوونما ہوتی ہے تو وہ اپنے اندر کے پوٹینشیل کو یوٹیلائز کرنے کی لاشعوری طور پہ جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن ماں باپ اکثر بےدھیانی یا والدین ہونے کے زعم میں انھیں ایسا کرنے نہیں دیتے ،وہ چاہتے ہیں کہ بچے ہمیشہ ان کے تابع رہیں ،وہ ان کے لئے جو بہتر سمجھتے ہیں اسی کو وہ خود کے لئے بہتر سمجھیں۔ اس کنٹرولنگ رویے کی وجہ سے بچے کی قوت فکر متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ والدین بچوں کو غلط چیزوں سے روکتے ہیں لیکن ان کا سامنا کرنے اور ان کے منفی نتائج سے متعلق ان سے بات نہیں کرتے ۔اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ان عادتوں کے حوالے سے متجسس رہتے ہیں، انجانے میں اسے کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ایک طرف ماں باپ اسے اپنے اصولوں کی طرف کھینچ رہے ہیں ،دوسری طرف وہ اپنے تجسس کے ہاتھوں ان کے برخلاف جانے کی سعی کرتے ہیں۔ جوں جوں بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں والدین ان کی خودمختاری یا آزادی قبول کرنے کے بجائے ان پہ اپنا آپ مسلط کرنا بند نہیں کرتے، یہاں تک کہ ان کا کیرئر کیا ہوگا، کن کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوگا، ان کو کیا فیصلہ کرنا ہے اس سب کچھ کو وہ اپنے ہاتھ میں لئے رہنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بچے نہ صرف اپنی انفرادیت کو باقی رکھ پاتے ہیں نہ ہی ان کی فکری قوت کی نشوونما ہو پاتی ہے۔ وہ اپنی ذمےداریوں کو یا تو قبول نہیں کرتے یا اگر کرتے بھی ہیں تو محض تقلیدی نوعیت کی سطح پہ کرتے ہیں ،وہ اپنے والدین کی غلطیوں کو دہرانے میں ذرا بھی تامل محسوس نہیں کرتے کیوں کہ ان کی تجزیاتی صلاحیت کو پنپنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے اور وہ کٹھ پتلی بن کے رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ دوسری انتہا پہ پہنچ جاتے ہیں ،مطلب ان کے اندر بغاوت کی آگ بھی بھڑکنا شروع ہو جاتی ہے جس پہ والدین بعد میں واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ والدین کا رویوں کو کنٹرول کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ والدین کا بچوں کے رویوں کو کنٹرول کرنے کا مطلب ہے کہ وہ بچوں کی سوچوں، عملوں، یا فیصلوں پر قابو رکھنا چاہتے ہیں، یہ غالباً ایک انتہائی ناقص اور غیر ممکن العمل کوشش ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہر انسان اپنے اصولوں، تجربات، اور زندگی کی ترجیحات کے مطابق سوچتا ہے۔ اس طرح بچہ بھی وقت گذرنے کے ساتھ اس آزادی کے استعمال کے حق کا مستحق ہے۔
ماہرین نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بچوں کو حد سے زیادہ کنٹرول کرنے کا نتیجہ انتہائی بُرا ہوتا ہے، وہ بچوں کی رجحانات کی تعین میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کی دن بھر کی سرگرمیوں کے حوالے سے مصروف ترین شیڈول بنا کر اسے بچے پر تھوپنے کا رویہ بچے کی ذہنی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ خاص طور پر اس سے بچے کے دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچتا ہے جو شعورکی ترقی اور فہم و ادارک کے ساتھ منسلک ہے۔
نفسیاتی رسالے ‘فرنٹیئر سائیکلوجی کے مضمون کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے چھ برس کی عمر کے 70 بچوں پر کئے جانے والے ایک مطالعے کے نتیجے سے اخذ کیا کہ والدین کا ضرورت سے زیادہ بچوں کو مرضی کے تابع رکھنے کا رویہ بچوں کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔ جبکہ ایسی مائیں بچوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے مددگار ثابت نہیں ہوتی ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، اُس وقت ان کی شخصیت میں کسی خاص سمت میں معلق ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے، کچھ غلطیوں پہ ہو سکتا ہے، وہ عارضی طور پہ قابو پا لیں لیکن وہ اس کو جڑ سے ختم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اول یا تو وہ اسے غلط ہی نہیں سمجھتے ،دوم اگر لاشعوری طور پہ یہ خیال اس کے اندر ہو بھی تو وہ شعوری طور پہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش نہیں کر پاتے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ والدین کس طرح خود کو کنٹرولنگ پیرنٹ بننے سے روکیں یا پھر وہ کس طرح اپنے بچوں کی تربیت میں ایک مثبت مربی کا کردار ادا کریں، میں یہاں پہ خلیل جبران کا ایک اقتباس کا حوالہ دینا چاہوں گی جو انھوں نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے ناول النبی میں لکھا ہے۔
’’تمہارے بچے تمہارے نہیں ہیں، یہ زندگی کی امانت ہیں۔ انہیں اپنی محبت دو ،مگر اپنے خیالات نہ دو۔ کیونکہ اِن کے اپنے خیالات ہوتے ہیں۔
تم اِن کے جِسموں کا خیال رکھ سکتے ہو، اِن کی روحوں کا نہیں۔ کیونکہ ان کی روحیں آنے والے کل کے مکانوں میں رہتی ہیں، جہاں تمھاری رسائی ممکن نہیں۔‘‘
بےشک والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں پہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے انھیں سوچنے کا سلیقہ سکھائیں، فیصلہ سازی کے ہنر سے روشناس کرائیں، فیصلوں کے غلط ثابت ہونے پہ انھیں صد فیصد ذمےداری قبول کرنے کا حوصلہ دیں، غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت کو اُجاگر کریں، جس کے ذریعے ان کے شعور کی نشوونما کو ممکن بنایا جا سکے۔ اگر وہ غلط راستوں پہ چلنے پہ بضد ہوں تو ان پہ پابندیاں عائد کرنے سے پہلے انھیں عقلی طور سے اس کے منفی اثرات سے آگاہ کریں، ان کو یقین دلائیں کہ آپ ان کے بہی خواہ ہیں، پابندیاں کبھی بھی کارگر حل نہیں ہوتیں، اس لئے اس سے حتی المقدور گریز کریں۔
بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ جس عنصر پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے بچوں کا خدا سے ایک زندہ تعلق بنانا۔ انھیں اپنے ڈر سے مغلوب کرنے کے بجائے خدا کے سچے احساس سے متعارف کروائیں۔ یاد رکھیں بچے والدین کی اولاد بعد میں ہوتے ہیں، پہلے وہ اللہ کا بندہ ہوتا ہے اگر یہ تعلق کمزور ہو گیا تو باقی رشتوں کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، اور بچہ بڑا ہو کر خود اپنی زندگی میں بھی کشمکش اور بے جا تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔
بچوں کو اپنا پابند بنانے پہ فوکس کرنے کے بجائے ان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے پہ توجہ دیں، اس طرح کمی و زیادتی ہونے کی صورت میں بروقت اس کا ازالہ ممکن ہوتا ہے، بات چیت کا عمل جاری رہتا ہے۔
انھیں ایک اچھا انسان بننے کی ترغیب دیں ،پھر وہ اپنے طے شدہ مادی شعبوں کی کامیابی کو ازخود مینیج کرلے گا۔
ان کو غیر مشروط محبت کا احساس دلائیں، اگر اسے اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں تو انھیں اس بات کا احساس بھی دلائیں، انھیں یہ بتائیں کہ آپ ان کے لئے کتنے اہم ہو، خود کے لئے ان کے اندر اہم ہونے کا جذبہ پیدا کریں۔ کسی بھی تعلق کو فار گرانٹڈ لے کر اس کی قدر نہیں کی جا سکتی، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس میں احساسات و جذبات کے ساتھ وقت کی بھی انویسٹمنٹ کی جائے۔
<[email protected]