ناظمہ چوہدری ۔جموں
کم عمری کی شادی ہندوستان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دیہی علاقوں کے بیشترلوگوں، خصوصاً غریب گھرانوں کے لئے بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کا خرچہ ایک اضافی بوجھ ہوتا ہے۔ بالخصوص جب اسکولوں کیلئے براہ راست اور بالواسطہ فیس کی ضرورت ہوتی ہے۔جموں اور کشمیر کے بہت سے دیہی علاقوں میں بیشترخاندان اپنی بیٹیوں سے تعلیم سے دور رکھ کرگھر کی صفائی، کھانا پکانے، چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور کھیتوں میں مدد کرنے کا کام لیتے ہیںاور انہیں سکول بھیجنے سے کتراتے رہتے ہیں۔بہت سے خاندان صرف اپنے بیٹوں کو ہی اپنے خاندان کامستقبل ، کمانے والا اور اپنے بوڑھے والدین کا سہارا سمجھتے ہیں، اس لئے لڑکوں کو ہی تعلیم دینے کی ترغیب دیتے ہیں ،لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں جیسے کہ غربت، کم عمرکی شادی اور صنفی بنیاد پر تشدد ،مختلف علاقوں اور مختلف کمیونٹیز میں مختلف ہوتی ہیں۔ تعلیم میں سرمایہ کاری کرتے وقت غریب خاندان اکثر لڑکوں کی حمایت کرتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر اسکولی لڑکیوں کی حفظان صحت کی ضروریات تک پوری نہیں کی جاتیں اور یہ بھی ان کی تعلیم میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے۔
ماضی کے مقابلے، حال میں کہیں زیادہ لڑکیاں اسکول جانے لگی ہیں۔ تاہم ترقی کے باوجود خواتین اور لڑکیوں کو جنس کی بنیاد پر متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دیگر عوامل جیسے عمر، نسل، غربت اور معذوری، معیاری تعلیم اور خاندانوں تک رسائی کے مساوی حقوق میں لڑکیوں کی تعلیم کے بجائے لڑکوں کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے۔جس سے لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ جب ایک لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے، تو اکثر اُسےتعلیم سے کنارہ کشی کرنا پڑتی ہے ۔ ایک لڑکی کے لئے اپنی شادی سے پہلے یا اس کے فوراً بعد اسکول چھوڑنے کا بہت زیادہ امکان رہتا ہے۔ایک بیوی یا ماں کے طور پر، اس سے اکثر توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر، بچوں اور خاندان کا ہی خیال رکھے۔ شادی شدہ لڑکی کے لیے اسکول جانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ لڑکیوں گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنےکے لئے اسکول سے جبری اخراج بھی کرنا پڑتا ہے۔ جموں کے ایک دور دراز علاقے کی رہنے والی مسکان کا کہنا ہے کی جب اسکی عمر تقریباً16 سال تھی، تب اسکے والدین نے اسکی شادی کر دی، حالانکہ وہ پڑھنا چاہتی تھی اور تعلیم یافتہ ہوکرکچھ بننا چاہتی تھی۔ لیکن شادی نے اسکے سارے ارمان ختم کر دئے۔اب وہ تین بچوں کی ماں ہے۔ مسکان اپنی بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہے اور کسی قابل بنانا چاہتی ہے۔اُس کا کہناہے کہ جو وہ خود نہیں کر پائی وہ اب اسکے بچے کرپائیں گے۔
ضلع رام بن کی رہنے والی ناہیدہ کا کہنا ہے کہ میری شادی بھی کم عمری میں ہوئی۔ میں شادی کو ہمیشہ سے ہی ایک لڑکی کی زندگی کا نیا جنم سمجھتی تھی لیکن حقیقت کچھ اورہے۔شادی جہاں لڑکی کوایک نئی پہچان دیتی ہے وہیںاُس کی خود کی پہچان گم ہوجاتی ہے۔ شادی کے بعداُس کے خواب اپنے نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کے خواب پورے کرنے میں پڑجاتےہیں۔ ہمارے سماج میں لڑکی کو شادی کے بعدمحض گھر سنبھالنے والی چیز سمجھا جاتا ہے۔ ناہیدہ نے کہاکہ دیہی علاقوں کی خواتین سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ گھر کا کام کریں،بچوں کو اور گھر کو سنبھالیں،بوڑھے ماں باپ کی خدمت کریں۔حالانکہ اس میں بُرائی کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن خواتین کو فقط انہی کاموں کے قابل سمجھنا اور اس کے علاوہ کسی اور کام لے لائق نہ سمجھ کر ، انہیں عزت نہ دیناانتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک امر ہے۔کم عمری میں شادی اور تعلیم سے دوری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کشمیرکے نوگام علاقہ کی حمیدہ بیگم کا کہنا ہے کہ ’میری شادی بھی کم عمری میں ہوگئی تھی، میں نے سوچا تھا کہ پڑھ لکھ کر ٹیچر بنوں، لیکن جلدی شادی ہو جانے سے زندگی میں پھراسکول جانا کبھی نصیب نہ ہوا۔ بقول اس کےاُن دنوں ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کےاسکولی تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ جموں کے دیہی علاقہ برمینی میں گجر بکروال طبقہ میں یہ رواج اب بھی عام ہے کہ لڑکیوں کومیٹرک تک ہی پڑھا کر انکی شادی کر دی جاتی ہے۔ حال ہی میں مذکورہ طبقہ کی نویں جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی کی شادی کر دی گئی اورپھر اس پر گھر کی ساری ذمہ داریاں ڈال دی گئیں۔ دیہی علاقہ جات میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکی کو صرف لکھنا پڑھنا آگیا تو کافی ہے، لیکن اس کے مستقبل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
جہا ں ایک طرف دنیا عالمی وبائی مرض کرونا وائرس کے اثر ات سے دو چار ہو رہی تھی تووہیں دوسری جانب جموں و کشمیر کے کی دیہی علاقوں میں اسکول جانے والی لڑکیوں کی شادیاں ہو رہی تھیں۔جس کے نتیجے میں اُن کی تعلیم بُری طرح متاثر ہوگئی ۔ دلہن بننے والی بہت سی لڑکیوں کو بلا وجہ سکول سے دور کردیا جاتا ہے اور ان کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات شادی کے بعدنہایت کم رہ جاتے ہیں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ معیاری تعلیم تک رسائی نہ ہونابھی کم عمری میں جبری شادی کے امکانات بڑھاتا ہے۔ کم عمری کی شادی اور لڑکیوں کی معیاری تعلیم تک رسائی کی کمی دونوں کی باتیںصنفی عدم مساوات کی نشاندہی کر رہی ہیں۔اگر آج بھی اپنی سوچ میں تبدیلی نہ لائی جاتی اور ماضی کے رسم و رواج سے کنارہ کشی نہ کی جاتی تو مستقبل میں لڑکیوں کی تعلیم کا گراف مزید نیچے جا سکتا ہے۔(چرخہ فیچرس)