یہ امر اطمینان بخش ہے کہ بالآخر حکومت نے کم از کم اجرت کی شرحوں پر نظر ثانی کیلئے مشاورتی بورڈ کو تشکیل دینے کی منظوری دے دی ہے ۔اس ضمن میں باضابطہ حکم نامہ جاری کرکے بورڈ کو10ستمبر تک سفارشات پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مشاورتی بورڈ کو جموں و کشمیر میں طے شدہ ملازمتوں کی کم از کم اجرت پر نظر ثانی کے لئے کم از کم اجرت ایکٹ مجریہ1948کے تحت مشاورتی بورڈ کی تشکیل کو عمل میں لایا گیا ہے۔جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے مشیرکی سربراہی میں بورڈ میں محکمہ خزانہ، ،محکمہ تعمیرات عامہ،محکمہ محنت و روزگار کے انتظامی سیکریٹریوں اور جموں کشمیر کے لیبر کمشنر کے علاوہ ملازمین کے نمائندے بشمول جموں کشمیرانڈسٹریز لمیٹڈ کے نمائندے شامل ہونگے جبکہ بورڈ میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز سرینگر و جموں ، فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز بڑی برہمنہ، فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز صنعت نگر نیز ملازمین کے نمائندے بشمول بھارتیہ مزدور سنگھ لیبر یونین،سٹیٹ سنٹرل لیبر یونین ، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس ، سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز اور انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس کے نمائندے بھی شامل ہونگے۔
دیر آید درست آید کے مصداق گوکہ کم سے کم اجرت کی شرحوں کوجولائی میں مشتہر ہونا تھا تاہم اب اگر اس ضمن میں مشاورتی بورڈ کا قیام عمل میں لاکر نئی شرحوں کو مشتہر کرنے کی خاطر بورڈ کو اپنی سفارشات پیش کرنے کیلئے10ستمبر کی ڈیڈلائن دی گئی تو یہ امیدپیدا ہوگئی ہے کہ اب مزدور پیشہ طبقہ کو اپنا جائز حق پانے کیلئے زیادہ دیر انتظار نہیںکرناپڑے گا۔قابل ذکر ہے کہ اپریل 2022میں جموںوکشمیر یوٹی حکومت نے یومیہ اجرت والوں کی کم از کم اجرت میں اضافے کو منظوری دینے کا اعلان کیا تھاجس میں تمام سرکاری محکموں میںکام کررہے کیجول لیبروں کو شامل کیاگیاتھا اور یہ اضافہ 225 روپے یومیہ سے 300 روپے یومیہ تک کیاگیاتھا۔مزید کہاگیاتھا کہ محکمہ محنت و روزگار کی جانب سے کم سے کم اجرت کی شرحوں پر نظر ثانی نہ کرنے تک یہ ایک عبوری اقدام ہے اورنظر ثانی کیلئے محکمہ محنت وروزگار کو تین ماہ دئے گئے تھے۔گوکہ تین ماہ جولائی میں ختم ہوچکے ہیں اور عملی طور تاحال کچھ نہیںہواہے جو مزدور طبقہ کیلئے مسلسل پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ آج کے مہنگائی کے دور میں اب سرکاری محکموں میں کام کررہے یومیہ مزدوروں کیلئے اپنے عیال کیلئے دو وقت کی روٹی بھی جٹاپانامشکل ہوچکا ہے۔لیکن یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اب بالآخر اس سمت میں قدم تو اٹھایاگیا۔اب جبکہ مذکورہ مشاورتی بورڈ 10ستمبر کو اپنی سفارشات پیش کرے گااور اس کیلئے تمام متعلقین کو بورڈ میں ممبروں کی حیثیت سے شامل کیاگیا ہے تاہم ہم بھی یہاں بورڈ کو کچھ اہم باتیں گوش گزار کرانا ضروری سمجھتے ہیں۔ کم سے کم اجرت کا خیال مزدوری سے متعلق قوانین اور قواعد کے تعین میں رہنما قوت بنناچاہئے۔یہ صرف معیشت اور غریبوں کی مدد کرنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر انسانی وقار کے خیال سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ایک ایسا نظام جہاں انسانوں کا احترام نہیں کیا جاتا اور یہ احترام اس بات سے عیاں نہیں ہوتاکہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے،ایسا نظام یقینی طورپر استحصال کو ہی جنم دیتا ہے۔یہ بالکل یہی استحصال ہے جو یہاں اب طویل عرصے سے ہو رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ مہذب اور جمہوری سماج ہونے کے باوجود یہاں اس کو استحصال کا نام نہیں دیاجاتا ہے بلکہ یہاں یہ احسان کے زمرے میں آتا ہے اور اکثر بابوئوں و حکمرانوں کا خیال یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں قلیل اجرتوں پر لوگوں کو لگا کر وہ اُن کا استحصال نہیں کررہے ہیں بلکہ ان پر احسان کررہے ہیں۔ایک ایسے وقت جب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اس طبقے کے لوگوں کو دی جانے والی اجرت نہ صرف ناکافی ہے، بلکہ ذلت آمیزبھی ہے۔
ہمارے نظام کا المیہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے لئے وسائل وافر مقدار میں محفوظ رکھتے ہیں جن کی پہلے سے اچھی اجرت ہے۔سرکاری نظام کے بالائی تہہ کے ملازمین کے لئے تنخواہوں میں اضافے کا ایک جھٹکایقینی طور پرمزدور طبقے کی ماہانہ اجرت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ کبھی مہنگائی بھتہ تو کبھی کسی اور بہانے سرکار ایسے ملازمین کو نوازتی رہتی ہے لیکن ان بیچارے یومیہ اجرت والے ملازمین پر کسی کو ترس نہیں آتا ہے۔جمہوری اور فلاحی ریاست میں یہ سراسر استحصال ہے۔ اس صورتحال میں حکومتوں کے سربراہان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ یومیہ اجرت والے ملازمین اور مزدوروں کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔کم از کم اجرت کیلئے ایک معیار قائم کرنے کا خیال صرف اس کی شروعات ہے۔ مشاورتی بورڈ کو یہ اجرت طے کرتے وقت باوقار زندگی کے تمام عناصر کو مدنظر رکھنا چاہئے۔اس طبقے کے لوگوں کے پاس کھانے کیلئے اچھا کھانا، پہننے کے لئے اچھا لباس، رہنے کے لئے ایک اچھا گھر، اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کافی وسائل ہونے چاہئیں اورہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے کم از کم کچھ بچت بھی ہونی چاہئے۔انسان ہونے کے ناطے ان کی وہی ضروریات اور خواہشات ہیں جیسے مہینے کے آخر میں موٹی تنخواہ لینے والے لوگوں کی ہوتی ہیں اور یہ کیسے یہ ممکن ہے کہ یکساں ضروریات والے افراد کے لئے اجرتوں میں اس قدر تفاوت ہو۔بلا شبہ گریڈنگ کے لحاظ سے تنخواہ اور اجرت ملنی چاہئے لیکن کم سے کم اجرت یا تنخواہ اتنی بھی ہونی چاہئے کہ ایک شخص کو دو وقت کی روٹی کیلئے ہاتھ پھیلانا یا چوری نہ کرنا پڑے۔مزدوروں کو مستقل طور یونہی استحصال کی بھٹی میں نہیںجھلسایا جاسکتا ہے بلکہ ان کی دادرسی لازمی ہے اور فوری طور ان کی باوقار زندگی کا بندوبست کیاجانا چاہئے تاکہ انہیں بھی لگے کہ و ہ ایک استحصالی نظام کا نہیںبلکہ ایک جمہوری اور فلاحی نظام کا حصہ ہے اور ان کے کام کا وقار بھی مجروح نہیں ہورہا ہے۔