سید مصطفیٰ احمد۔ بڈگام
آج جب پھر میں گھر سے دو تین کلومیٹر دور نکلا تو بچوں کی ٹولیاں سڑکوں پر گشت کررہی تھیں۔ ہمارا گاؤں دو ضلعوں کے تحت آتا ہے، بڈگام اور سرینگر۔ ہمیں دونوں ضلعوں کے شہری اور گاؤں کے علاقوں کو دیکھنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ جھیلِ ہوکرؔسر ہماری ہمسائیگی میں ہے، جس کی وجہ سے یہاں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کشمیر میں آرمی کیمپوں میں ایک بڑاآرمی کیمپ یہاں کے شریف آباد میں موجود ہے۔ مشہور ایچ ،ایم، ٹی بھی ہمارے پڑوس میں ہے۔ یہاں بچوں سے لے کر ہر عمر کے لوگ فرصت کے لمحات اور چھٹیوں کے دن گھومنا پھرنا پسند کرتے ہیں۔چنانچہ رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ہمارے تہذیب و تمدن بھی تبدیل آچکی ہے۔ پہلے ہمارے یہاں سادگی ہوا کرتی تھی لیکن اب ایک جنونی تہذیب نے ہر جگہ قبضہ جمالیا ہے۔وقت کے ساتھ تبدیلیاں تو ہوتی رہتی ہیں،جن میں کچھ مثبت ہوتی ہیں مگرایادہ تر اپنے ساتھ منفیات کے عناصر لاتی ہیں۔ جب ہم بچے تھے، تو زندگی کا ایک طرزِ عمل تھا۔ اُس وقت جو غلط ہوا کرتا تھا، وہ آج صحیح تصور کیا جاتا ہے۔البتہ کچھ ایسےاصول ہیں جو جُوں کے تُوں چلے تو آرہے ہیںمگر ان کے انداز بدل دیئے گئے ہیں۔ جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، لڑائی جھگڑے، چوری کرنا،الزام تراشی وغیرہ کو ہمارے بچپن میں غلط اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔مگر آج کل اِن خرابیوں اور بُرائیوں کونہ غلط سمجھا جاتا ہےاور نہ ہی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ اب تو ہمارے کم سِن ناتجربہ کار بچوں نے ان غلط کاریوںکی دلدل میں کھل کراُترنا شروع کردیا ہے۔ بارہ سے پندرہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیوں کوان کاموں میں ملوث دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔ اب ذرا عید الفطر کی بات کروں تو عید کے دن چھوٹے بچوں اور کمسن نسل کی حالت دیکھ کرحیران رہ گیا۔ بلا کسی خوف و ڈر کےسگریٹ نوشی ہر بچہ کھل کر کررہا تھااور اپنے طرزِ اطوار سے ہر کوئی اپنے اسلاف کے اقدار کی دھجیاں اُڑا رہا تھا۔حیا و شرم نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیںآرہی تھی ۔شائد اسی لئے اب چاقوئوں اور نوکیلے ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر حملے کرنے کا رُجحان بھی آگے بڑھ رہا ہے۔میں پہلے ہی میں بیان چکا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ زمانہ بدلتا رہتا ہے۔مختلف طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔چلنے پھرنے کے ڈھنگ، ملبوسات، سوچ، طرز زندگی، وغیرہ، ہر چیز میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ مگر غنڈہ گردی کی خوفناکی کیوں کر اور کہاں سے دَر آئی ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِن کمسن بچوں کی ذہنوں میں کون ساشیطانی خیال اُبھر آیا ہےکہ وہ چاقوئوں اور دیگر ہلاکت خیزچیزوںکے ساتھ ایک دوسرے پر حملےآور ہونےسےکوئی ہچکچاہٹ یاخوف محسو س نہیں کرتے ہیں؟یہ نیامسئلہ بڑا پیچیدہ دکھائی دیتا ہے۔
اصل میں اس کمسن نسل کو مجرم کے کٹہرےے میں کھڑا کرنا نادانی ہے۔ ہمارے یہاں توبڑےبڑوں کا حال، بے حال ہے۔ دنیا اوردولت کی ہوس نے سب کو انسان نما جانور بنا دیا ہے۔دِکھا وا ،اَنّااور بغض و حسدنے ہمیں درندگی پر لا کھڑا کردیا ہے۔ عزم و استقلال ،محنت و مشقت اور رزقِ حلال سے ہی بہتریں معاشرہ اور ترقی یافتہ قوم تیار ہوتی ہےاور وہی قومیں ہر لحاظ سے انسانیت کے درجے پر پوری اُترتی ہیں۔ مگردورِحاضرمیں اکثر لوگ،چھوٹے بڑے پیمانے پر حرام ذرائع کی کمائی میں مصروف ہیں۔ رشوت، جعلسازی ،دھوکہ دہی،ناجائز منافع خوری،چھل کپٹ،سینہ زوری ،ٹھگی ،ناجائز و غیر قانونی اور گھناؤنے کاموں میں ملوث ہیں، تواُن کی اولاد کا شریف ہونا، دیوانوں کے خواب کے خواب میں مبتلا ہونے کے ہی مترادف ہے۔ حرام کی دولت سےنیک کام نہیںہوسکتےہیں،جس کےنتیجے سامنے آرہے ہیں۔ہماری کمسن نسل بھی اب ایک دوسرے کا گلا کانٹنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں۔ظاہر ہے، جب اُن کے بڑے بھی مختلف طریقوں سے دوسروں کے گلے کاٹتے رہتےہیں،اس کا اثر تو بچوں پر پڑ ہی سکتا ہے۔ رشوت لینا توجرم ہے مگر ہر کوئی لیتا ہے۔جھوٹ بولنا ،دھوکہ دہی کرنا،چوری کرنا غرض کسی بھی طرح سے اور کسی بھی شکل میں دوسروں کا استحصال کرنا اوراُنہیں تکلیف پہنچانا گناہ ہے مگر کون ان کاموں سے گریز کرتا ہے؟اس کا سیدھا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔چنانچہ وہ اسی رزقِ حرام پر پلتے،بڑھتےاور جوان ہوجاتے ہیں ،اس لئے وہ بھی گناہوں کے مائل ہوجاتے ہیں۔ایک اور وجہ موبائل فونس کا عام ہونا بھی ہے۔ بلوغت سے پہلے بڑے ہونا ،تباہی کے مترادف ہے۔ وہ مواد دیکھنا جس کے لئے ذہن مکمل طور پر تیار نہیں ہوتا، بچوں کو ذہنی انتشار کا شکار بنا دیتا ہے۔ لڑائی جھگڑوں اور فسادات میںہلاکت خیز ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش اور استعمال دیکھ کر بھی کمسن نسل کے ذہن اُن خوفناک وادیوں کی جانب چلے جاتے ہیں، جہاں سے اُن کی واپسی انتہائی مشکل بن جاتی ہے۔ دس سال کا بچہ موبائل فونز پر موجود اُس مواد کی باریکیوں اور تباہیوں کو کیسے سمجھ پائے گا جو تیس سال کے نوجوان کے لئے بھی پُر خطرہوتا ہے۔ آن لائن گیمز بھی اس میں اپنا نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔ قتل و غارت گری ،مضروبیت اورمجروحین کو دیکھ دیکھ کر بچوں کے اذہان پرمنفی نقوش کی چھاپ پڑ جاتی ہے اور وہ اسکو عملی صورت دینے کے کوشش کرتے رہتےہیں۔اپنے یہاں تو قانون کی گرفت بھی ڈھیلی ہے، رشوت کے عوض قاتل تک چھوٹ جاتے ہیں، جس کا سیدھا اثر بچوں پر پڑتا ہے، وہ بھی موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور گناہوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ صحبت کا رول بھی نمایاں رہتا ہے۔ گالی گلوچ ،اور لڑائی جھگڑوںکے ماحول میں بچوں کا مستقبل اچھا نہیں بن سکتا۔ دراصل بچوں کے بگاڑ میں بڑوں کا ہی ہاتھ رہتا ہے۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آئی کہ کیسے اولاد کی تعلیم وتربیت کی جائے۔ ہم ان کو محض لالچ کے لئے پالتے ہیں، اُن پر خرچ کیا ہوا پیسہ اُنہی کے ذریعے واپس لانا چاہتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ بچہ پہلے انسان ہے، وہ سوچتا ہے، اثر لیتا ہے، جذبات کا مجموعہ بن جاتا ہے اور پھرکچھ کرنا چاہتا ہے۔ ہم اس کے جذبات کی قدر نہیں کرتے،بَس مذہبی لبادے کی اوڑھ میںسمجھاتے اور دھمکاتے رہتے ہیںاوردنیا کی اصل حقیقتوں سے دور رکھتے ہیں۔ ہم ان بچوں کے ذریعےہی اپنی خواہشات پورا کرنا چاہتے ہیںاور اُن کی خواہشوں کا دَم گھونٹتے رہتے ہیں۔
موجودہ دور کےحالات میں انسانیت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنا، تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔اس لئےہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس غنڈہ گردی کے رجحان کا تدارک کرنا ہے۔ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنی ہے۔بچوں کے دوستوںکے ماحول کو دیکھنا ہے۔ بچہ اپنے کمرے میں کیاکرتا رہتا ہےاور کس چال ڈھال میں رہتا ہے،موبائل کتنا استعمال کرتا ہے، اس پر نظر رکھنی ہے۔ہاں!اپنے بچوں کو دوسروں کے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنا بھی چھوڑ دینا ہے۔ اس کی جائز حاجتوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔ بچوں کو بچے کےہی سطح پر سمجھانا وقت کی ضرورت ہے۔ اپنی کارکردگیاں بچوں کے سامنے جتاتے رہنے میں کوئی دانائی نہیں ہے۔ ان کو مثبت لڑائی لڑنے کی کوشش کروانی ہے۔ ہار اور جیت زندگی کا حصہ ہے،یہ بات اُن کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ تواریخ سے اسباق لینا ان کے لئے مفید ہوسکتے ہیں۔ سخت ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنا ہوسکے ایک ماہر نفسیات کی طرح بچوں کو سمجھنے اور سمجھانےکی کوشش کرنی ہے،اور کسی بھی طرح کے ذہنی دباؤ سے باہر لانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
[email protected]