والدینکی سات بیٹیوں میں سے اس کا چھٹا نمبر تھا۔وہ دس سال کی تھی جب اس کی بڑی پانچ بہنوں کو جب وہ تیسری‘ چوتھی اور پانچویں کلاس میں زیرتعلیم تھیں ،والدین بھارت چھوڑ آئےتھے۔یعنی وہاں لے جاکر ان کی شادی کردی۔ جسوندر‘ اپنی بہنوں کے بغیر اداس رہنے لگی، وہ ان کے پاس جانا چاہتی تھی۔ایک دن وہ اسکول سے واپس آئی، تو ماں نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا‘تم اپنی بہنوں سے ملنا چاہتی ہو ناں، ہم نے تمہاری خواہش پوری کردی ہے۔ آج میںنے تمہاری پسند کا کھانا بھی پکایا ہے، چلو جلدی سے کھانا کھالو، پھر چلنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ماں نے اس سے پہلے کبھی اس طرح محبت کااظہار نہیں کیا تھا۔وہ ان کے رویے پر حیران ہوئی لیکن جلدہی اس پر عقدہ کھل گیا، ماں نے‘اس کے سامنے ایک سکھ نوجوان کی تصویر رکھ کر کہا‘ جب تم 8 سال کی تھیں تو ہم نے اس سے تمہارا رشتہ طے کردیاتھا‘اب دو دن بعد تمہاری شادی ہے۔کل تم ہمارے ساتھ بھارت جارہی ہو۔یہ سن کر جسوندر نے برجستہ کہا‘ ’’مجھ سے پوچھے بغیر‘ میری مرضی کے بغیر‘میں نے اسے دیکھا نہیں‘ ہرگز اس انجانے شخص سے شادی نہیں کروں گی‘ ویسے بھی میری شادی کی عمر نہیں ہوئی۔‘‘ماں باپ کو کم عمر بیٹی سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ وہ اس کا انکار سن کر سیخ پا ہوگئے۔باپ نے مارا‘ ماں نے ڈانٹا لیکن وہ اپنے انکار سے پیچھے نہ ہٹی۔اس رات اسے ایک کمرے میں قید کردیاگیا لیکن صبح ہونے سے قبل وہ کمرے کی کھڑکی سے فرار ہوگئی اور والدین کو فون کرکے بتایا‘میں نے آپ کا گھر چھوڑ دیا ہے،گرچہ کم عمر ہوں لیکن شادی اپنی مرضی سے کروں گی۔جسوندر اب اپنے گھر نہیں جاسکتی تھی‘اس نے بورڈنگ ہائوس میں داخلہ لے لیا۔ماں باپ نے اس سے قطع تعلق کرلیا۔جسوندر تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے یونی ورسٹی آف ڈربی میں پہنچ گئی‘اسی اثناء میں اس کی بارہ سالہ بڑی بہن نےشوہر کے مظالم سے تنگ آکر خود سوزی کرلی۔بہن کی المناک موت نے جسوندر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔وہ کم سنی کی شادی کے خلاف کھڑی ہوگئی۔اس نے برطانیہ میں رہتے ہوئےنہ صرف کم سنی اور جبری شادیوں کے خلاف آواز بلند کی بلکہ تین ناول کم عمری کی شادی کے تنا ظر میں قلم بند بھی کیے۔
دنیا کے بیش تر ممالک میں انسانی حقوق کے عالمی کنونشنز کے برخلاف اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی لڑکیوں کی شادی کردی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر والدین غربت، سماجی تنازعات اور زیادہ بچوں کی وجہ سے انہیں بوجھ سمجھنے لگتے ہیں، یوں بچوں کی کم عمری میں شادی کر کے اپنے کاندھوں کا بوجھ کم کر کے اپنے بچوں پر ڈال دیتے ہیں۔عالمی کنونشنز میں واضح طور پر کم عمری کی شادیاں بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل (2)16کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (CRC) میں حق بقا، غیر مناسب سلوک اور استحصال سے تحفظ سمیت بچوں کو اپنے خاندان کی ثقافتی اور سماجی زندگی میں مکمل طور پر شمولیت کا حق دیا گیا ہے، لہٰذا پاکستان سمیت بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک پر پابندی لاگو ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں بچیوں کو تحفظ اور تمام معینہ حقوق فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے جو قوانین رائج ہیں، وہ ناکافی ہیں۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل عورتوں اور بچّوں کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں تھا۔ انگریزوں نے ان کے تحفظ کے لیے پہلی بار قوانین رائج کیے۔ ابتدائی اقدامات کے طور پر ’’ستی‘‘ جیسی ظالمانہ رسم ختم کی، جس میں بعض ہندو ذات میں مرد کی چتّا کے ساتھ اس کی بیوہ کو بھی زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ نئے قوانین میں ہندو عقیدے کے برخلاف بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت دی گئی، نیز دختر کشی روکنے کے لیے دو قوانین بنائے گئے۔ پہلا قانون 1795 اور دوسرا 1804میں بنا۔ قانون سازی میں جہاں ہندوئوں کی سماجی زندگی سے متعلق معاملات کا خیال رکھا گیا، وہیں مسلمانوں کے حقوق اور مسلم خواتین سے متعلق قوانین بھی بنائے گئے، لیکن خواتین سے متعلق قانون سازی میں ترقی پسند اور قدامت پسند نظریات کے حامل افراد تقسیم ہو گئے، ان کے اختلافات سے قانون سازی کے عمل میں رکاوٹیں حائل ہوئیں، مگر لوگوں کے منفی رویوں کے باوجود خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میدان میں آگئیں، اگرچہ ان کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اُنہوں نے سماجی زندگی سے متعلق قانون سازی پر آواز بلند کی، جن میں کم عمری کی شادی کا مسئلہ بھی شامل تھا، بعد ازاں چائلڈ میرج ایکٹ 1929، مسلم شریعت ایکٹ 1937اور تنسیخ نکاح کا قانون 1939میں نافذ ہوا۔ چائلڈ میرج ایکٹ کی مسلمانوں نے مخالفت نہیں کی، جب کہ دوسرے ایکٹ کی مخالفت کی۔ 1935میں مرکزی قانون ساز اسمبلی میں شریعت بل پیش کیا گیا۔
اس بل سے ہندوستان کی مسلم خواتین کی سماجی اور سیاسی حیثیت بڑھی۔ فرسودہ رسم و رواج کے خاتمے اور حقوق و فرائض میں توازن پیدا ہوا۔ مسلم خواتین کے عائلی قوانین کے سلسلے میں سب سے اہم قانون سازی چائلڈ میرج ایکٹ 1989کی صورت میں ہوئی۔ اس ایکٹ کے تحت کم عمر بچیوں کی شادی کرانے کے جرم میں ایک ہزار روپے جرمانہ اور تین ماہ کی سزا تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ ایکٹ نافذ تھا، جو انتہائی غیر موثر تھا۔اس کے بعد پاکستان سمیت مختلف ممالک میں وقتاََ فو وقتاََ ’’چائلڈ میرج ایکٹ‘‘نا فذ ہوتے رہے لیکن عمل درآمدصِفر ہی رہا۔ہر ملک میں قوانین کی دھجیاں بکھرتی رہیںاور کم سن بچوں کے ہاتھوں سے کھلونےچھین کر ان پر ذمے داریوں کا بوجھ لاد دیا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں، جو تقریباً 46 فیصد ہیں، جب کہ پاکستان میں 13 فی صد بچیاں شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کردی جاتی ہیں۔ معاشی و سماجی لحاظ سے پس ماندہ دیہی علاقے، جہاں بچیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی، وہاں کم عمری کی شادیوں کا زیادہ رجحان ہے۔ 1929ء کے چائلڈ میرج ایکٹ کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی عمر کم از کم 16 سال مقرر تھی ، مگر چائلڈ میرج کے حوالے سے پالیسی بنانے والے اوردیگر بااثر افراد نے اسے ہمیشہ نظر انداز کیا ۔ چند سال قبل اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ نوجوان لڑکیوں کا عالمی دن منایا تھا، اس موقع پر یونیسیف کے پاکستان میں نمائندوں نے کہا تھا کہ، لڑکیوں کی تعلیم میں اضافہ، ان کی اچھی صحت اور نومولود بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ نو عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔گر چہ کم عمری کی شادیوں کے بارےمیں ابھی تک کوئی جامع تحقیق منظر عام پر نہیں آئی ہے، لیکن ایک سرکاری سروے رپورٹ کے مطابق، 15 سے 18 سال کے درمیان 50 فی صد بچیاں یا تو اُمید سے ہوتی ہیں یا ماں بن چکی ہیں۔ واضح رہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ گائوں اور دیہات میں بچوں کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ نہیں بنوائے جاتے اور شادی کے وقت لڑکی کی عمر کی تصدیق نہیں کی جاتی۔ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون تو ہے، لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔سابق رکن پارلیمان، ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ مرحومہ نے اسمبلی سوال اٹھایا تھا کہ’’ اگر 18 سال ووٹ کی عمر ہے اور اسی عمر میں قومی شناختی کارڈ بنتا ہے تو شادی16 برس کی عمر میں کیوں؟‘‘ لیکن اس کا جواب نہ ملا، حالاں کہ کم عمری کی شادیوں کے خاتمے پر اتفاق پایا جاتا ہے، تاہم یہ معاملہ مذکورہ اتفاق کے باوجود رک نہیں سکا۔
اعداد و شمار کے مطابق، ترقی پزیر ممالک میں ہر تین میں سے ایک لڑکی کی سن بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی شادی کردی جاتی ہے۔ ہر نو میں سے ایک لڑکی کے پندرہویں سال گرہ منانے سے قبل ہی ہاتھ پیلے کردیئے جاتے ہیں، ان میں زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق غریب گھرانوں، کم تعلیم یافتہ اور دیہی علاقوں سے ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2010میں 6.7ملین سے زائد لڑکیوں کی شادیاں 10تا 14سال کی عمر میں ہوئیں، جن میں نصف کا تعلق براعظم ایشیا اور براعظم افریقا کے ممالک پر مشتمل تھا۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو 2021تا 2030تک ہر سال 15.1ملین کم عمر لڑکیوں کی شادیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔یو این ایف پی اے (UNFPA) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں بیس سے تیس فی صد لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال سے قبل کردی جاتی ہے
(بقیہ اگلے گوشہ خواتین میں ملاحظہ فرمائیں)