ہمارا نظامِ تعلیم ابھی تک بھی معروضی طور طریقوں پر استوار ہے۔ ہم نئی نئی ایجادات و منکشفات کا خاطر خواہ استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے جہاں ہر کسی شعبے میںانقلاب برپا ہوگیا ہے وہیں اس کا بہترین مصرف نظام تعلیم پر بھی ہو سکتا ہے۔ تعلیمی نفسیات (Educational Psychology)کے ضمن میں جہاں ماہرین نہایت ہی کارگر مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں وہیں اُس کے بالمقابل ہم پرانے راگ الاپنے میں ہی مست ہیں۔ اسی صورتحال میں جب کورونا وائرس نے نظام زندگی کے ہر ایک شعبے پر یلغار کی تو اِس کا خاصا اثر نظامِ تعلیم پر بھی پڑا۔ ماہرین کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی اس صورتحال کو لے کر متبادل ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے۔ متبادلات کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم اس ایک ماحول میں پہنچے جہاں ہمارے تمام پرانے طریقہ کاروں پر کاری ضرب پڑ گئی۔ مثال کے طور پر بچوں کا موبائل فون استعمال کرنااسے پہلے منع تھا، لیکن آج جس کے پاس موبائل فون نہیں ہے تو وہ آن لائن کلاس نہیں لے سکتا۔ موبائل کی تباہ کاریاں اپنی جگہ پر موجود تو ہیں، لیکن والدین کی زیر نگرانی اس مفید آلے سے تعلیم بھی حاصل کی جاسکتی ہے، کورونا لاک ڈائون نے ہمیں یہ سبق بھی سکھایا۔
اسی بیچ جموں و کشمیر کے سیکریڑی برائے تعلیم نے اساتذہ صاحبان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اپنے محلوں میں کمیونٹی کلاسز کا اہتمام کریں۔ ان کلاسز میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا آسان ہے، اس لیے جہاں تک ہو سکے، بچوں کو اِن کلاسز کی طرف متوجہ کریں۔ کمیونٹی کلاسز کو لے کر محکمے نے مزید کچھ رہنما خطوط استاتذہ تک پہنچائے ہیں۔ یہ عمل جہاں نہایت ہی مستحسن ہے، وہیں اس کے اندر کئی ساری خامیاں بھی پائی جارہی ہیں۔ مستحسن اس لیے کہ بچہ جب ایک غیر رسمی ماحول میں ، کھلے آسمان کے نیچے، سرسبر و شاداب فرش کے اوپر، سہانے موسم میں تعلیم حاصل کر تا ہے تو اس کا اثر زیادہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ وہ جن سائینسی مضامین کو کتاب کے اندر پڑھتا ہے وہیں مضامین اس کے بالکل آس پاس اپنا عکس دکھا ئی دیتے ہوئے ہیں ۔ ایسے ماحول میں نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ یہ ایک مضبوط ٹریننگ پروگرام کا روپ بھی دھار لیتا ہے۔ بچہ نہ کسی گھنٹی کا پابند ہوتا ہے، نہ کسی ٹائم ٹیبل کا۔ ایسے ماحول میں جو تعلیم وہ حاصل کررہا ہوگا، اس میں ضرور چاشنی اور بچے کی دلچسپی ہوگی۔
جہاں تک خامیوں کی بات ہے ، اُن میں سب سے پہلے اساتذہ صاحبان کا غیر مخلص اپروچ ہے۔ اکثر اساتذہ صاحبان بے جا معذرت کرکے ان حسین و جمیل کلاسز سے ’’جان چھڑا‘‘رہے ہیں۔ دوم، ہر جگہ ایسے کلاسز کا اہتمام کرنا ناممکن ہے۔ کیوںکہ کورونا کا خطرہ ابھی بھی اپنی جگہ بر قرار ہے۔ گلی گائوں میں جب کوئی شخص کورونا وائرس کا مثبت پایا جاتا ہے تو اس کا براہ راست اثر وہاں کی کمیونٹی کلاسز پر پڑجاتا ہے۔ سوم، والدین ابھی بھی اپنے بچوں کی صحت کو لے کر کئی سارے خدشات سے دوچار ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس وبا کے دوران کسی بھی خطرے سے بچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے کئی سارے والدین ایسے کلاسز سے اپنے بچوں کی دوری میں ہی عاقبت سمجھتے ہیں۔ چہارم، انتظامیہ کی جانب سے ایسے کلاسز کی کوئی خاص پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔ استاتذہ صاحبان یا بچوں کو ماسک، ہینڈ سینی ٹا ئزر وغیرہ مہیا نہیں کرائی جارہی ہیں۔ پنچم، کئی سارے کلاسوں میں دیکھا گیا کہ احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
ان خامیوں کو اگر دور کیا جائے تو موجودہ صورتحال کے تنا ظر میں کمیونٹی کلاسز کی یہ پہل نہایت ہی کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور نظام تعلیم کو ہوئے نقصانات کی تلافی بھی نا ممکن نہیں ہے۔
(مضمون نگار جامعہ کشمیر کے شعبہ سماجی ورک کے محقق ہیں)