مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سےچند روز قبل جاری کئے گئے حکمنامے، جس کے مطابق دس مرکزی ایجنسیوں کو کسی بھی شہری کے کمپیوٹر میں موجودمعلومات کی نگرانی کرنے، ان میں رخنہ ڈال کر ان کی جانچ کرنے اور انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی اور بھیجی جانے والے معلومات کی جانچ پڑتال کرنے کے اختیارات دیئے گئے ہیں، کو سارے ملک میں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بیشتر لوگ اسے عام شہریوں کی خلوتوں کو مسدود کرنے کا ایسا اقدام قرار دے رہے ہیں، جس سے لوگوں کے فطری و جمہوری حقوق تہہ و بالا ہونگے۔مذکورہ حکمنامے پر پارلیمنٹ کے اندر بھی زبردست اعتراضات اُٹھائے گئے لیکن حکومت نے یہ کہہ کر اعتراضات کو مسترد کر دیا کہ یہ کوئی نیا حکمنامہ نہیں بلکہ سال 2000میں جاری کئے گئے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی توسیع ہے، جس میں بعد ازاں وقت بہ وقت ترامیم عمل میںلائی گئیں اور جس کے مطابق معلنہ اداروں کو کمپیوٹر معلومات میں داخل اندازی کرنے اور انکی نگرانی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر نگرانی کا ایک سلسلہ موجودتھا تو حکومت کو نیا حکمنامہ جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟انکا ماننا ہے کہ بھلے ہی یہ ملک کی سلامتی کےنام پر کیا کیا اقدام ہو لیکن اس کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس سے عام شہریوں کی راز داری اور خلوت کا حق بُری طرح متاثر ہوا ہے، بلکہ اگر دیکھا جائے تو عملی طور پر یہ حق ہی ختم ہوگیا ہے ،کیونکہ نئے احکامات کے مطابق متعلقہ ایجنسیوں کی استدعا پر کسی قسم کا انکار قابل سزا جرم قرار پایا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کمپیوٹروں کے توسط سے معلومات کا لین دین اس وقت انسانی زندگی کی ایک سب سے بڑی اور اہم حقیقت ہے اور جب یہی زد میں آئے تو لازمی طور پر انسانی زندگی مجموعی طور پر مثاتر ہوئے بنا نہیں رہ سکتی۔ جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنےیا ملکی سلامتی کےلئے ترسیلی عمل کی نگرانی کرنے پر کسی سنجیدہ فکر شہری کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے، لیکن جب اس کے دائرہ کار میں سارے شہریوں کو لایا جائے تو یقیناً عمل تشویش کا سبب بنتا ہے۔ ایک جانب حکومت وقت وقت پر عالمی سطح کی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کمپنیوں کو اس بنیاد پہ نگرانی کے دائرے میں لاتی رہی ہے تاکہ انٹرنیٹ کے توسط سے عام شہریوں کو تکلیف پہنچانے والے مواد کو مسدود کیا جائے اور اس حوالے سے ان کمپنیوں کو وقت بہ وقت پر مطلع کیا جا تا رہا ہےکہ لوگوں کی نجی معلومات تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ہونے دی جا نی چاہئے۔ لیکن موجودہ حکمنامے سے خود ہی عام شہریوں کے حقوق کو متاثر کر دیا گیا ہے اور ایک عنوان سے اگر یہ کہا جائے کہ اب شہریوں کی زندگیوںکی شب و روز کی سرگرمیوں، اُنکے افکارو خیال اور انکی حرکات و سکنات اُن قدغنوں کے دائرے میں لایا گیا ہے، جن کی قانونی سطح پر اُن ممالک کے اندر مثال بھی نہیں ملتی، جہاں کمپیوٹراور انٹرنیٹ کی دنیا کا بنیادی خیال اُبھر کر ساری دنیا پر چھا گیا ہے۔ ان ممالک ، خاص کر امریکہ میں بھی نگرانی کا نظام موجود ہے لیکن اس کے اختیار ات صرف عدلیہ کو تفویض ہیں، جس کی اجازت کے بعدہی ایسا کام روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔اگر چہ بھارت میں بھی ایسے امور کی نگرانی کا اختیار مرکزی کابینہ سکریٹری اور ریاستوں کےا ندر چیف سکریٹریوں کو حاصل تھا اور انکی تحریری اجازتوں کے بعد ہی ایسی کوئی کاروائی روبہ عمل لانے کی گنجائش تھی، مگر نئے احکامات کے تحت جن ایجنسیوں کو کمپیوٹر میں موجود معلومات اور مواد کی ضبطی اور اسے کھولنے کا اختیار دیا گیا، اُن میں کئی ایسی ایجنسیاں بھی شامل ہیں جنکا تعلق ملکی سلامتی سے ہے اور جن سے عام طور پر پوچھ تاچھ کا کسی سرکاری محکمے کو یارا نہیں ہوتا۔ جہاں تک ریاست جموںوکشمیر کا تعلق ہے تو یہاں یہ سلسلہ برسوں سے چلاآرہا ہے، جب حفاظتی ایجنسیاں اپنی من مرضی کے مطابق کمپویٹروں سے ڈاٹا حاصل کرکے اسے کھولنے(Dycrypt) کرنے کا کام کرتی رہی ہیں اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ کیا اسکے لئے وہ لازمی قانونی اتھارٹیوں سے تحریر ی اجازت نامے حاصل کرتی رہی ہیں، لہٰذا ا س عنوان سے ریاست کے اندرغالباً یہ کوئی نیا عمل نہیں ہوگا، لیکن متعددایجنسیوں کی تعیناتی سے لازمی طور پر اس سرگرمی میں اضافہ ہوگااور عام شہریوں کو زیادہ پریشانیوں کا سامنا رہیگا۔ من الحیث المجموع ملکی سطح پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی جانب سے اس حکمنامے پر جن خدشات کا اظہار کیاگیا ہے، انہیں پرانے حکمنامے میں ترمیم کرنے کے سرکاری دعوے سے دور نہیںکیا جاسکتا ، لہٰذا ضروری ہے کہ مرکزی حکومت او راس سے منسلک ادارے لوگوں کے خدشات دور کرنے میں پہل کرے۔