معلومات
امریکی نیورو ٹیکنالوجی کمپنی ’نیورا لنک‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے امریکی محکمہ صحت نے کمپیوٹر چپ کو انسانی دماغ میں آزمانے کی اجازت دے دی۔’نیورا لنک‘ ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی کمپنی ہے، جسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اس کمپنی کا مقصد ایسی کمپیوٹرائزڈ چپ تیار کرنا ہے، جنہیں انسانی دماغ اور جسم میں داخل کرکے انسان ذات کو بیماریوں سے بچانا ہے۔اسی کمپنی نے 2020 میں تیار کردہ کمپیوٹرائزڈ چپ کو جانوروں کے دماغ میں داخل کرکے اس کی آزمائش بھی کی تھی اور پھر کمپیوٹرائزڈ چپ والے جانوروں کو دنیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔
کمپنی نے مذکورہ چپ کی انسانوں پر آزمائش کے لیے امریکی محکمہ صحت سے اجازت طلب کی تھی اور اب نیورا لنک کو آزمائش کی اجازت دے دی گئی۔نیورا لنک کی جانب سے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکا کے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) نے کمپیوٹرائزڈ چپ کی انسانی دماغ میں آزمائش کی اجازت دے دی۔اسی حوالے سے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) نے بتایا کہ اگرچہ محکمہ صحت نے اس حوالے سے مزید کوئی تفصیلات شیئر نہیں کیں، تاہم اس بات کی تصدیق کی کہ ادارے نے ایلون مسک کی کمپنی کو کمپیوٹرائزڈ چپ کی آزمائش کی اجازت دے دی۔
نیورا لنک کے مطابق کمپیوٹرائزڈ چپ کی انسانی دماغ میں آزمائش کے پروگرام کو امریکی محکمہ صحت کے تعاون سے مکمل کیا جائے گا اور اس ضمن میں مزید تفصیلات جلد ہی جاری کی جائیں گی۔ادارے کے مطابق ابھی آزمائشی پروگرام کے لیے بھرتیاں نہیں کی جا رہیں لیکن اس ضمن میں جلد ہی مزید معلومات کو عام کیا جائے گا۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں نیورا لنک کمپنی محدود رضاکاروں کو بھرتی کرکے ان کے دماغوں میں کمپیوٹرائزڈ چپ کو داخل کرکے آزمائشی پروگرام کا آغاز کردے گی۔نیورا لنک کی جانب سے بنائی گئی مذکورہ چپ کسی چھوٹے سکے کی سائز کی ہے اور وہ انتہائی پتلی ہے، جسے کسی بھی جاندار کے دماغ میں نصب کرکے اسے وائرلیس سسٹم کے ذریعے اسمارٹ فون سے منسلک کیا جاسکے گا۔
مذکورہ چپ فالج، انزائٹی، ڈپریشن، جوڑوں کے شدید درد، ریڑھ کی ہڈی کے درد، دماغ کے شدید متاثر ہوکر کام چھوڑنے، نابینا پن، سماعت گویائی سے محرومی، بے خوابی اور بے ہوشی کے دوروں سمیت دیگر بیماریوں اور مسائل کو فوری طور پر حل کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔مذکورہ چپ کو موبائل فون کے سم کارڈ کی طرح ایسے سسٹم سے بنایا گیا ہے جو سگنل کی مدد سے اسے اسمارٹ فون سے منسلک کرے گا اور پھر فون کے ذریعے مذکورہ چیزیں شامل کی جا سکیں گی اور چپ سے چیزیں نکالی بھی جا سکیں گی۔
مذکورہ چپ انسانی خیالات کا ریکارڈ بھی جمع کرے گی جب کہ انسان کی یادداشت کو بھی محفوظ رکھ سکے گی۔چپ میں محفوظ انسانی یادداشت کو کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے کسی بھی وقت ری پلے کیا جا سکے گا یا کسی بھی وقت ماضی میں گزرے دنوں کو اسکرین پر ڈیٹا کی صورت میں لایا جا سکے گا۔
دریں اثنابہت جلد انسان ہاتھ سے چھوئے بغیر دماغ سے کمپیوٹر کو استعمال کرسکیں گے اور جانوروں پر یہ تجربات کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔یہ بات ٹیسلا اور اسپیس ایکس جیسی کمپنیوں کے بانی ایلون مسک نے بتائی۔ان کی ایک اور کمپنی نیورلنک انسان دماغ اور کمپیوٹر کو براہ راست منسل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس ٹیکنالوجی کی انسانوں پر آزمائش 2020 میں شروع کردی جائے گی۔
یوٹیوب پر لائیو اسٹریمنگ کے دوران ایلون مسک کا کہنا تھا کہ جانوروں پر تجربات کامیاب رہے ہیں ‘ایک بندر اپنے دماغ سے کمپیوٹر کنٹرول کرنے کے قابل ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ کمپنی کے سائنسدانوں کی جانب سے جلد مزید تحقیقی نتائج کو جاری کیا جائے گا۔اس کمپنی کے قیام کا مقصد دماغی اور ریڑھ کی ہڈی کی انجری یا پیدائشی نقائض کے شکار افراد کی مدد کی جاسکے اور اس ٹیکنالوجی سے چلنے پھرنے یا فہم سے محروم افراد کا علاج ممکن ہوسکے۔مگر طویل المعیاد بنیادوں پر اس ٹیکنالوجی کا مقصد ڈیجیٹل سپرانٹیلی جنس لیئر کو تشکیل دینا ہے، یعنی انسانوں کو مصنوعی ذہانت سے منسلک کردیا جائے، حیران کن طور پر ایلون مسک آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو ماضی میں انسانیت کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ایلون مسک کے مطابق ‘ہم یقیناً مکمل دماغی مشین انٹرفیس بنانے کی کوشش کریں گے اور اس ٹیکنالوجی کی بدولت لوگ محض سوچ کر ایک منٹ میں 40 الفاظ ٹائپ کرسکیں گے۔اس کمپنی نے رواں سال کے شروع میں سلائی مشین جیسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے جانوروں کے دماغوں میں ڈرل سے چھوٹے سوراخ کیے اور الیکٹروڈ کو داخل کیا۔ایلون مسک کا کہنا تھا ‘ہمیں توقع ہے کہ رواں سال کے آخر تک ایک انسانی مریض پر اس کا تجربہ ممکن ہوسکے گا۔تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اس کی منظوری ملنا مشکل ہوسکتا ہے۔