الطاف صوفی
مینڈک بڑے آرام سے تالاب میں زندگی گزار رہا تھا ۔لیکن ایک دن اسکے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔اسکو بھوک لگی ہوئی تھی ۔کافی دیر سے کھانے کے لئے کچھ نہیں مل رہا تھا ۔خوراک کی تلاش میں وہ پانی سے نکل کر کنارے پر آیا تو وہا ں ایک پتھر پر کھانے کی چیز پڑی ہوئی تھی ۔وہ بڑا خوش ہوا اور پتھر پر چڑھ کر جیسے ہی ،خوراک کے قریب ہوا تو ایک انسانی ہاتھ نے اسکو پکڑ کر تھیلے میں ڈال دیا ۔وہ چلایا ،پھڑپھڑایا لیکن تھیلے سے باہر نہیں نکل سکا ۔آدمی نے گھر آکر ایک برتن میں پانی بھرا ۔اسکو چولہے پر رکھا اور مینڈک کو اس میں ڈال دیا ۔مینڈک نے صاف پانی دیکھا تو وہ اسکو اچھا لگنے لگا ۔وہ اس میں تیرنے لگا ۔اور اسکو انجوائے کرنے لگا۔کچھ ہی دیر میں اسکو محسوس ہوا کہ پانی کا نچلا حصہ گرم ہورہا ہے ۔اس نے پرواہ نہ کی ۔کچھ دیر بعد سارا پانی گرم ہوگیا ۔اور رفتہ رفتہ وہ شدت اختیار کرتا گیا ۔لیکن اس نے اپنی قدرتی صلاحیت سے اپنے جسم کو ٹھنڈا کرنا شروع کیا ۔پانی گرم ہوتا گیا اور وہ اپنی جسمانی ٹھنڈک بڑھاتا چلا گیا ۔دو منٹ کے بعد پانی اُبلنا شروع ہوگیا ۔مینڈک نے اپنے جسم کو اسکے مطابق ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن اسکے مسلز جواب دے گئے ۔اب اس نے اچھل کود شروع کی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح اس برتن سے باہر نکلے لیکن اسکی تمام جدوجہد بے کار ثابت ہوئی ۔تھوڑی دیر میں وہ ہانپنے لگا ۔اسکے جسم میں توانائی ختم ہوچکی تھی ۔اور کچھ ہی لمحوں میں کھولتے ہوئے پانی کی تاب نہ لاکر وہ مرگیا ۔
ہم انسانوں کی مثال بھی مینڈک کی اس کہانی جیسی ہے ۔ہم میں سے 98فیصد لوگ ایسے ہی اپنا وقت ایک خطرناک ترین جگہ پر گزارتے ہیں ۔جی ہاں خطرناک ترین جگہ ۔آپ کے ذہن میں ہوگا کہ میں تو ایسی کسی جگہ سے لاعلم ہوں ،لیکن نہیں ۔آپ نے بھی کہیں نہ کہیں اس جگہ وقت گزارا ہے ۔یہ جگہ کمفور ٹ زون (خطہ آرام) ہے جو انسان کی صلاحیتوں کا قتل اور اس کے ہنر کو زنگ آلود کرتا ہے ۔
گھر میں صوفے پر نیم دراز ہوکر ٹی وی دیکھنا ،صبح کی سیر کے بجائے نرم بستر کے مزے لینا ،فاسٹ فوڈ سے لطف اندوز ہونا ،محنت و مشقت کے بجائے کام سے جان چھڑانا ،یہ خواہش کرنا کہ زندگی بھر کوئی تکلیف ،کوئی مسئلہ ،کوئی آزمائش میرے سامنے نہ آئے ،مجھے کوئی تنگ نہ کرے کیونکہ مسائل نمٹانے نے میری جان جاتی ہے ،محنت کرنے سے میرا من نہیں بھرتا ۔ورزش میں پسینہ بہانا خود کو خوامخواہ میں تھکا دینا ہے ۔یہ سب انسان کے دل کی آواز ہوسکتی ہے لیکن یہ اس قدر خطرناک جال ہے کہ اس میں پھسنے والا انسان اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔
مینڈک والی مثال کا جائزہ لیجئے ۔اگر مینڈک پتیلے کے صاف پانی کے مزے نہ لیتا اور پانی شدید گرم ہونے سے پہلے وہ چھلانگ مار لیتا تو اسکی جان بچ سکتی تھی ۔لیکن وہ پڑا رہا ۔اس نے ایک بہترین موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔اس نے چلینج کو عارضی سمجھ کر نظر انداز کیا لیکن جب بات اسکی برداشت سے باہر ہوگئی اور اس کے لئے پانی سے نکلنا بے حد ضروری ہوگیا تب اسکے پاس اتنی توانائی ہی نہیں بچی تھی کہ وہ اپنی جان بچا پاتا ۔
ہمارے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ہم گزارے لائق زندی کو قبول کرلیتے ہیں ۔ہمارے پاس محنت کرنے ،اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے ،خود کو نکھارنے اور عام سے خاص بننے کا ایک سنہری موقع موجود ہوتا ہے لیکن کمفورٹ زون ہمیں اس قدر لطف و سرور کا عادی بنالیتا ہے کہ ہم اسکو چھوڑ ہی نہیں سکتے ۔اس کی پہنائی ہوئی بیڑیوں کو ہم توڑ ہی نہیں سکتے ۔ہماری سوچ ہوتی ہے کہ بس زندگی گزر رہی ہے نا تو گزرنے دو ،وقت آنے پر دیکھا جائے گا ۔اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب پانی سر سے اوپر چلا جائے اور ہماری سانس بند ہونے لگے تو پھر ہمارے اندر توانائی ہی نہیں بچی ہوتی ۔ہم صرف ہاتھ پیر ہی مار سکتے ہیں ،پانی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے ۔
کمفورٹ زون جس قدر خوشنما نظر آتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے ۔یہ ایک نشہ ہے جو غیر محسوس طریقے سے انسان کی رگوں میں اترتا ہے اور اسکو اپنا عادی بنالیتا ہے ۔اس میں رہتے رہتے انسان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اسکے اندر جو قابلیتیں موجود ہیں وہ زنگ آلود ہونا شروع ہوگئی ہیں۔رفتہ رفتہ وہ اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوناشروع ہوجاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ایک نکما ،تن آسان اور انتہائی سست انسان بن جاتا ہے ۔
قابلیت سے محروم انسان اپنی زندگی میں چلینج نہیں لے سکتا ۔معمولی حالات خراب ہونے پر بھی اسکے ہاتھ پھول جاتے ہیں ۔اسکے اندر زندگی کے حقائق تسلیم کرنے اور ان سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔اسکی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی ۔ایسا شخص اپنی زندگی بدلنا چاہ رہا ہوتا ہے ،وہ چاہتا ہے کہ میں ایک نامور انسان بن جائوں لیکن یہ صرف خواہش ہوتی ہے اسکو عملی شکل دینے کے لئے وہ کچھ کرتا نہیں ہے ۔وہ رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔وہ راستہ بدلنے ،ہجرت کرنے ،اور تبدیلی کی قیمت چکانے کو تیار نہیں ہوتا ۔اسکی زندگی میں نئے لوگ نہیں آتے ۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے تو اسلام آرام طلبی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔قرآن کی مشہور آیت ’’ربناآتنا حسنتہ وفی الآخرتہ حسنہ وقنا عذاب النار‘‘ بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ دنیا بہتر بنانے کے لئے ہمیں متحرک رہنا ہے ۔حضرت عمرؒ نے کچھ افراد کو رات دن مسجد میں پڑا دیکھا تو فرمایا ,’’میری مسجد سے نکل جائو ،تم وہ لوگ ہو جن کی وجہ سے میرے ملک کی معیشت خراب ہوگی ‘‘۔
بقول علامہ اقبال:
فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق
پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری
[email protected]