محکمہ ٹریفک نے اپنی ایک تازہ ایڈوائزری میں والدین پر باور کیا ہے کہ وہ نابالغ اور کمسن بچوں کو گاڑیاں اور ٹووہیلرچلانے سے باز رکھیں، کیونکہ یہ نہ صرف قانوناً جرم ہے بلکہ ان بچوں کی زندگیاں خطرات کی نذر کرنے کا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے دونوں درالحکومتی شہروں اور قصبہ جات میں ٹریفک کی حالت انتہائی خراب ہے اور روزانہ مختلف مقامات پر ٹریفک جام لگنے سے لوگوں کا جنیا دو بھر ہوگیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گاڑیا ں چلانے والوں کی طرف ٹریفک قواعد کی دھجیاں اُڑانے کا عمل بھی ایک معمول بنتا جا رہا ہے، جس کےلئے متعدد محرکات ذمہ دار ہیں اور ایک محرک یہ بھی ہے کہ ڈرائیو کرنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ڈرائیوینگ لائسنسوں کے حصول کے باوجودلاپرواہانہ ڈرائیوینگ اور جلد بازی میں ٹریفک قواعد کو توڑنے کی مرتکب ہوتی ہے، جو اکثر اوقات جان لیوا حادثات کا باعث بنتا ہے۔ علاوہ ازیں سڑکوں پر گاڑیاں پارک کرکے راہیں مسدود کرنے کی وجہ سے بھی ٹریفک کے عبو ر و مرور میں بے بیان مشکلات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ٹریفک کی صورتحال کو دیکھ کر بعض اوقات ایسا محسوس ہو تا ہے کہ شہروں اور قصبوں میں فی الوقت یہ غالباً سب سے بڑا عوامی مسئلہ ہے ، جس پر ہمہ رخی پالیسی اختیار کرکے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ حالیہ ایام میں محکمہ ٹریفک نے اس صورتحال پر قابو پانے کےلئے متعدد اقدامات کئے ہیں، جنکے اثرات ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ تاہم ان اقدامات میں زیادہ تر توجہ غلط پارکنگ کا ارتکاب کرنے والوں کی گاڑیاں اُٹھا کرانہیں ضبط کرنے اور کاغذات میں سقم کی پاداش میں جرمانے عائد کرنے کی کاروائی پر مرکوز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ چند مہینوںمیں قواعد شکنی کرنے والوں سے حاصل شدہ جرمانے کا حجم کئی گنا بڑھ گیا ہے اور جسکی تشہیر بھی محکمہ کی طرف سے وقت وقت پر کی جارہی ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ محکمہ کی توجہ ڈرائیونگ کے دوران قواعد شکنیوں پر مرکوز ہونی چاہئےتھی، کیونکہ ریاست کے اندر ٹریفک حادثات میںطوفانی رفتار کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور ان میں آئے روز جانی نقصان دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر یہ رفتار اسی عنوان سے جاری رہی تو یقینی طور پر ٹریفک حادثات کے نتیجہ میں پیش آنے والی اموات ریاست کے اندر غیر طبعی اموات کی سب سے بڑی وجہ بن کر سامنے آسکتی ہے، جو سماج کے تحرک اور جدت طرازی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اکثر حادثات تیری رفتاری کی وجہ سے پیش آتے ہیں اور ڈرائیو کرنے والے حضرات کو مختلف سڑکوں اور شاہراہوں کے لئے مقررہ ومعینہ رفتار کا یا تو علم نہیں ہوتا یا پھر اس سے دانستہ طور صرف نظر کیا جا تا ہے۔ دونوں صورتوں میں گیند محکمہ ٹریفک کے پالے میں پڑتی ہے۔ حالانکہ ماضی میں ریاستی سرکار نے زر کثیر خرچ کرکے محکمہ کے عملہ کےلئے ایسے آلات حاصل کر لئے تھے، جو ڈرائیوینگ کے دوران گاڑی کی رفتار پر کھنے کےلئے استعمال کئے جاتے تھے اور خلاف ورزی کنندگان کی نشاندہی کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔ کیا آج اُن آلات کا کہیں استعمال ہو رہاہے، اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔ بہر حال جس طرح گاڑیوں کی غلط پارکنگ کے خلاف ایک گیر مہم شروع کرکے نئے پارکنگ مقامات مقرر کرنے کے اقدامات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اُسی عنوان سے تیز رفتار اور لاپرواہ ڈرائیوینگ کےخلاف بھی ایک زور دار مہم چلانے کی ضرورت ہے، تاکہ سڑکوں پر دوڑتے وقت راہگیروں کی جانوں کا زیاں روکنے میں ایک مثبت پیش رفت ہوسکے۔ یہ بھی ایک برملا حقیقت ہے کہ ریاست کے طول وعرض میں آج کمسنوں اور نابالغوں کی جانب سے زیادہ ترٹووہیلر اور بعض اوقات گاڑیاں چلانے کے منظر عام دکھائی دیتے ہیں، خاص کر اچھی خاصی تعداد میں نابالغ طلبہ، جو ظاہر ہے لائسنس یافتہ نہیںہوتے، ٹو وہیلروں پر سکول جاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس غیر قانونی اور غیر انسانی عمل کی ذمہ داری والدین پر عائید ہوتی ہے، جوجہاں اپنے بچوں کے کرئیر کی فکرمیں دہرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن وہیں انکی جان کے بارے میں ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس سے ہماری سماجی اقدار عریاں ہوجاتی ہیں۔ اس عمل سے نئی نسل میں قواعد کی خلاف ورزی کا مزاج راسخ ہونے کا اندیشہ قوی ہونے کے پورے اسباب موجود ہے، جو آگے چل کرکلہم طور پر نہ صرف انکی زندگیوں بلکہ پورے معاشرے کےلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے حالات میں محکمہ ٹریفک کی جانب سے جاری کردہ ٹریفک ایڈوائزی کا خوش آمدید کیا جانا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اُمید بھی کہ اس سارے عمل کو صرف جرمانہ و صولی کے اہداف کو پورے کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جائیگا بلکہ اس مجرمانہ عمل کو قابو کرکے سماج کے اندر پنپ رہے ناسور کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی جائیگی۔