مختار احمد قریشی
زندگی کو بامقصد، پُرسکون اور بامعنٰی بنانے کے لیے آدابِ زندگی کی پیروی نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ انسان اپنی ذات میں سچائی اور دیانت داری کو جگہ دے۔ جھوٹ، فریب اور خودغرضی وقتی فائدہ تو پہنچا سکتے ہیں لیکن یہ شخصیت کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ ایک باادب اور مہذب انسان ہمیشہ نرم گفتار، خوش اخلاق اور وعدے کا پاسدار ہوتا ہے۔ اس کی گفتار اور کردار میں ہم آہنگی دوسروں کے لیے اعتماد اور سکون کا ذریعہ بنتی ہے۔دوسرا اہم اصول دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک ہے۔ معاشرے میں سکون اور محبت اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب ہم دوسروں کے جذبات کا احترام کریں اور ہر حال میں دوسروں کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی روا رکھیں۔ والدین کی خدمت، اساتذہ کا احترام، چھوٹوں سے شفقت اور دوستوں کے ساتھ اخلاص ایسے اوصاف ہیں جو انسان کو عزت بخشتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کرنا، معاف کرنا اور غیبت یا بدگمانی سے بچنا بھی مہذب زندگی کے اہم تقاضے ہیں۔تیسرا اصول خود نظم و ضبط اور صبر ہے۔ جو انسان اپنے وقت کی قدر کرتا ہے، محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا شعار بناتا ہے، وہی حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ غصے پر قابو، فضول خرچی سے اجتناب اور مثبت سوچ اختیار کرنا انسان کو اندر سے مضبوط اور پُرعزم بناتا ہے۔ زندگی کے یہ آداب نہ صرف فرد کو نیک اور کامیاب بناتے ہیں بلکہ ایک پرامن، خوشحال اور مثالی معاشرے کی بنیاد بھی رکھتے ہیں۔
ان اصولوں کے ساتھ ساتھ شکر گزاری بھی آدابِ زندگی کا ایک لازمی پہلو ہے۔ جو شخص نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے وہ قناعت اور سکون کی دولت سے مالا مال رہتا ہے۔ ناشکری انسان کو بے سکون اور حسد میں مبتلا کر دیتی ہے، جبکہ شکر گزاری نہ صرف دل کو مطمئن رکھتی ہے بلکہ انسان کو مزید کامیابیوں کا اہل بھی بناتی ہے۔ اسی طرح حلال روزی کمانا اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانا انسان کے کردار کو بلند کرتا ہے۔انسانی تعلقات میں ایک اور اصول برداشت اور رواداری ہے۔ اختلافِ رائے ہر جگہ ہوتا ہے لیکن اصل کمال یہ ہے کہ انسان صبر اور حکمت کے ساتھ دوسروں کے نقطۂ نظر کو سنے اور برداشت کرے۔ سخت لہجے یا ضدی رویے سے رشتے کمزور ہوتے ہیں جبکہ برداشت اور نرمی سے تعلقات مزید مضبوط ہو جاتے ہیں۔ یہی رویہ ایک صحت مند اور خوشحال سماج کو پروان چڑھاتا ہے۔
یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس امانت کو بہتر طور پر گزارنے کے لیے اخلاقی اور دینی اصولوں کی پاسداری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ نماز، سچائی، خدمتِ خلق، ہمدردی اور محبت وہ سنہرے اصول ہیں جو نہ صرف دنیا میں عزت دلاتے ہیں بلکہ آخرت کی کامیابی کی بھی ضمانت بنتے ہیں۔ یہی آدابِ زندگی کا اصل اور بہترین فلسفہ ہے۔زندگی کے بہترین آداب میں علم کی جستجو اور مسلسل سیکھنے کا جذبہ بھی نہایت اہم ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان نہ صرف اپنی ذات کو نکھارتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی روشنی کا ذریعہ بنتا ہے۔ علم انسان کو عاجزی سکھاتا ہے اور غرور و تکبر سے بچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ کتابوں اور اہلِ علم کی صحبت اختیار کرتے ہیں، ان کی شخصیت میں نکھار اور وقار جھلکتا ہے۔ساتھ ہی، صحت مند طرزِ زندگی بھی آداب میں شامل ہے۔ ایک شخص جب اپنی خوراک، نیند اور جسمانی محنت کا خیال رکھتا ہے تو وہ بہتر انداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے۔ صفائی اور سادگی بھی وہ عادات ہیں جو انسان کی اصل شخصیت کا پتہ دیتی ہیں۔ گھر اور معاشرے میں صفائی اور ترتیب پسندی انسان کو دوسروں کی نظر میں معتبر بناتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آدابِ زندگی صرف فرد کی حد تک نہیں بلکہ اجتماعی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک فرد جب اپنی زندگی کو بہتر اصولوں پر چلاتا ہے تو اس کا اثر پورے خاندان اور پھر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ معاشرتی عدل، بھائی چارہ، دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور قانون کی اطاعت وہ اصول ہیں جن پر چل کر ایک مثالی سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہی آدابِ زندگی دراصل انسانیت کی اصل روح ہیں جو فرد اور معاشرے دونوں کو کامیاب اور پُرسکون بناتے ہیں۔
آدابِ زندگی دراصل انسان کی اصل پہچان اور اس کے کردار کا عکس ہیں۔ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں سچائی، دیانت، ہمدردی، صبر، شکر گزاری اور نظم و ضبط کو اپنا لیں تو نہ صرف ہماری ذات خوشحال ہو جائے گی بلکہ ہمارا معاشرہ بھی امن و سکون کا گہوارہ بنے گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ عزت، سکون اور کامیابی کا حقیقی راز دولت یا عہدے میں نہیں بلکہ اچھے اخلاق اور مثبت رویے میں پوشیدہ ہے۔ یہی آدابِ زندگی ہمیں دنیا میں معتبر اور آخرت میں سرخرو بناتے ہیں۔
(کالم نگار ، پیشہ سے استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001