ریاست میں اعلیٰ تعلیم کوفروغ دینے کیلئے حالیہ برسوں کے دوران متعدد اقدامات کئے گئے اور اس سلسلہ میں قائم کئے گے نئے اداروں کا قیام زیادہ تر شہروں تک ہی محدود رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فروغ تعلیم کا دائرہ دور دراز علاقوں تک پھیلایا جائے اور اس امر کو مد نطر رکھا جائے کہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب ترجیحی بنیادوں پر مستحق ہیں۔حکومت اس سال ریاست میں مزید چھ کلسٹر یونیورسٹیاں قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جن کے حوالے سے جہاں ان خطوں کے عوام نے بھی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں وہیں ان کوماضی کے مشاہدے سے خدشات بھی ہیں کہ کہیں پھر سے ان اداروں کا قیام شہروں کےگرد و پیش میںہی سمٹ کر نہ رہ جائے ۔چند روز قبل ہی ریاستی حکومت نے اس بات کا اعلان کیاہے کہ ریاست میں مزید 6کلسٹر یونیورسٹیاں قائم کی جائیںگی جن میںسے 3 وادی کشمیر اور تین جموں خطے میں قائم ہوں گی۔وزیر برائے تعلیم سید الطاف بخاری کے مطابق ریاست کی طرف سے مرکزی حکومت کے ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو 6مزید کلسٹر یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے ایک تجویز بھیجی گئی ہے جن میں سے 2یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری رواںبرس متوقع ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت تک ریاست میں دو کلسٹر یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں ۔تاہم اب تک نظر انداز کئے گئے خطہ پیر پنچال و خطہ چناب کے لوگوں کو یہ امید ہے کہ انہیں بھی اس بار ضرورحق ملے گا اور یہی وجہ ہے کہ کلسٹر یونیورسٹیوں کیلئے دونوں خطوںکے عوام کی جانب سے مانگ زور پکڑ رہی ہے ۔ آج تک یہ روایت رہی ہے کہ ہر کسی بڑے ادارے کو جموں ، کٹھوعہ ، سانبہ یا اردگرد کے علاقوں میں قائم کیاگیا ۔ چاہے جموں کی سنٹرل یونیورسٹی ہو ،ایمز کالج ہو، کلسٹر یونیورسٹی ہو، ایگریکلچرل یونیورسٹی ہو یاپھر کوئی اور اہم ادارہ ، ارباب اقتدار کی نظریں ان کے قیام کیلئے شہری علاقوں تک ہی محدود رہیں اور ماسوائے ایک بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے ایسا کوئی ادارہ دور د راز کے اضلاع میں قائم نہیں کیاگیا جس سے مقامی طلباء کو فائدہ مل سکے ۔ جموں شہر اور اطراف و اکناف میں پہلے سے ہی اعلیٰ تعلیم کے کئی ادارے قائم ہیں جہاں مقامی طلباء کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی طرح کی کوئی پریشانی کاسامنانہیں تاہم خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کی خاطر یاتو جموں وسرینگر یاپھر بیرون ریاست جاناپڑتاہے اور ان غریب طلباء کیلئے پی جی کورس یا ایم فل و پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول بہت زیادہ مہنگا ثابت ہوتاہے ۔ اگر کوئی طالبعلم پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کا متمنی ہو تو اس کیلئے راستے زیادہ ہی مسدود ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ مجموعی ترقی کا خواب تب تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہر ایک علاقے کو اس کا حق نہ مل جائے اور دور دراز و پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا انحصار شہروں پر ہی نہیں رہنا چاہئے۔ خواہ وہ اعلیٰ تعلیم یا دیگر شعبےان کا قیام ایک شہر تک محدود نہیں رہناچاہئے بلکہ ہر ایک ضلع کے لوگوں کو ترقی کرنے کے یکساںمواقع میسر ہونے چاہیں اور موجودہ دور میں بھی اگر طلباء کو مقامی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ نہیں ملے گاتوپھر ان کی تقدیر بدلنے کی امیدکرنا عبث ہے۔چونکہ وزیر تعلیم اس حوالے سے سنجیدہ اور دردمندفکر رکھتے ہیں اس لئے یہ امید کی جانی چاہئے کہ نئی کلسٹر یونیورسٹیوں کےقیام کےعمل میں پیر پنچال اور چناب کے خطوں میں رہائش پذیر پسماندہ عوام کی امنگوں اور اُمیدوں کو نظر انداز نہیں کیا جائےگا۔